*سجدۂ شکر سے متعلق احکام*
سوال :
مفتی صاحب! سجدۂ شکر کرنا کیسا ہے؟ کیا امام صاحب کے نزدیک سجدۂ شکر مکروہ ہے؟ اس کا طریقہ کیا ہے؟ اور کیا سجدۂ شکر کے لیے وضو ضروری ہے؟ کرکٹ کے کھلاڑیوں کا سجدۂ شکر کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟ برائے مہربانی تمام سوالات کے جوابات عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد شاہد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جدید نعمت کی خبر سن کر سجدۂ شکر ادا کرنا جائز اور درست ہے، مگر عوام اس کو سنتِ مقصودہ سمجھ لیں گے اس اندیشہ کی وجہ سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کو مکروہ فرمایا تھا، ورنہ اصلاً امام صاحب کے یہاں بھی سجدہ شکر کی اجازت ہے۔
امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق خوشی و مسرت کے مواقع پر سجدۂ شکر کرنا جائز بلکہ مستحب ہے، اسی پر فتوی ہے۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کوئی خوش کن بات پیش آتی، یا اس کی خبر دی جاتی، تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے، سجدہ میں گر جاتے۔
سجدہ شکر کا طریقہ یہ ہے کہ باوضو قبلہ رُخ، تکبیر کہتے ہوئے سجدہ میں چلے جائیں، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح بیان کریں، پھر دوسری تکبیر کہتے ہوئے سر اٹھالیں، سجدہ شکر میں سلام کی اور تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نماز کے فوراً بعد اور جن اوقات میں نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، ان اوقات میں سجدہ شکر ادا کرنا مکروہ ہے۔
اسی طرح اکثر فقہاء کے نزدیک سجدہ شکر کے لئے بھی وضو ضروری ہے، خوشی کے موقع پر بلا وضو صرف زمین بوس ہوجانا سجدہ شکر نہیں ہے۔
نیز کرکٹ کھلاڑیوں کا سجدہ شکر ادا کرنا تو یہ کوئی خوشی و مسرت کا موقع نہیں ہے، جس پر سجدۂ شکر ادا کیا جائے۔ بلکہ اس وقت تو استغفار کرنا چاہئے کیونکہ کرکٹ کھیلنا تو حیات مستعار کے قیمتی لمحات کو ضائع کرنا ہے۔
والمفتیٰ بہ أنہا مستحبۃ لکنہا تکرہ بعد الصلاۃ، لأن الجہلۃ یعتقدونہا سنۃ أو واجبۃ، وکل مباح یؤدي إلی ہذا الاعتقاد فہو مکروہ، وعلی ہذا ما یفعل عقب الصلاۃ من السجدۃ مکروہ إجماعا، لأن العوام یعتقدونہا أنہا واجبۃ أو سنۃ، وکل جائز أدی إلی اعتقاد ذلک کرہ، ویکرہ أن یسجد شکرا بعد الصلوۃ في الوقت یکرہ فیہ النفل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۳۶، الباب الثالث في عشر سجود التلاوۃ)
سجدۃ الشکر جائزۃ عند الإمام لا واجبۃ۔ (الأشباہ والنظائر مع الحموی : ۱/۶۵)
وقال ابو یوسف ومحمدؒ ہی قربۃ یثاب علیہا ۔ ۔ ۔ یستحب لہ أن یسجد شکراً ﷲ تعالیٰ ۔ ۔ ۔ قال فی الحجۃ ولا یمنع العباد من سجدۃ الشکر لما فیہا من الخضوع والتعبّد وعلیہ الفتویٰ کذا فی التتار خانیۃ.(الفتاویٰ الہندیۃ : ۱۳۶/۱)
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ بَكَّارِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخْبَرَنِي أَبِي عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا جَاءَهُ أَمْرُ سُرُورٍ أَوْ بُشِّرَ بِهِ خَرَّ سَاجِدًا شَاكِرًا لِلَّهِ۔ (سنن أبي داؤد. كتاب الجهاد، .باب في سجود الشكر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ذی القعدہ 1440
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریں