ہفتہ، 6 جولائی، 2019

خواتین کے ختنہ کا شرعی حکم

*خواتین کے ختنہ کا شرعی حکم*

سوال :

محترم ومکرّم حضرت مفتی صاحب! سوال یہ ہے اسلام میں کیا عورت کا بھی ختنہ ہوتا ہے؟ختنہ کروانا کیا درجہ رکھتا ہے؟ اور عورتوں کا ختنہ کیسے کیا جاتا ہے؟ کیا اس طرح کا واقعہ خير القرون سے ملتا ہے؟
مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کا ختنہ جسے عربی میں خفاض کہا جاتا ہے، عربوں کے یہاں اس کا رواج تھا۔ احناف کے یہاں یہ فرض، واجب یا سنت نہیں ہے۔ بلکہ ایک مباح عمل ہے۔ لہٰذا اگر خواتین کا ختنہ نہ کیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

عورت كا ختنہ اس طرح ہوگا كہ پيشاب خارج ہونے والى جگہ پر مرغ كى كلغى جيسى چمڑى كا كچھ حصہ كاٹا جائے، بہتر يہ ہے كہ وہ سارى كلغى نہ كاٹى جائے بلكہ اس كا كچھ حصہ كاٹا جائے۔ (الموسوعۃ الفقھيۃ، 19 / 28)

خیرالقرون میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اس لئے کہ عربوں کے یہاں اس پر عمل کیا جاتا تھا۔  ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت ام عطیہ انصاری ؓ کہتی ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت تھی جو (عورتوں کی) ختنہ کیا کرتی تھی (جیسا کہ اس زمانہ میں عورتوں کی ختنہ کا بھی رواج تھا) نبی کریم ﷺ نے (ایک دن) اس عورت سے فرمایا کہ " کھال کو " زیادہ مت کاٹا کرو (بلکہ تھوڑا سا اوپر سے کاٹ دیا کرو) کیونکہ یہ (یعنی زیادہ نہ کاٹنا) عورت کے لئے بھی بہت لذت بخش ہوتا ہے اور مرد کو بھی بہت پسندید ہوتا ہے (یعنی اگر اس کو زیادہ کاٹ دیا جائے تو جماع میں نہ عورت کو لذت ملتی ہے اور نہ مرد کو)۔

اختلفت الروایات فی ختان النساء ذکر فی بعضہا انہا سنۃ ہکذا فی المحیط عن بعض المشائیخ و ذکر شمس الائمہ فی ادب القاضی للخصاف ان ختان النساء مکرمۃ ۔ (الفتاویٰ الہندیہ، ۵/۳۵۷)

عن ام عطیۃ الا نصاریۃ‘ ان امراۃ کانت تختن بالمدینۃ فقال لہا النبی ﷺ لا تنکہی فان ذلک احظی للمراۃ واحب للبغل (سنن ابی داؤد، باب فی الختان ۲/۳۶۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ذی القعدہ 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں