*راجیہ سبھا میں طلاقِ ثلاثہ بِل منظور*
*مسلمان کیا کریں؟*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام ! طلاقِ ثلاثہ بل اپنی تمام تر خامیوں اور احمقانہ جزئیات کے باوجود لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بھی منظور ہوچکا ہے۔ اور ظاہری حالات یہی بتارہے ہیں کہ صدر جمہوریہ نامی ربر اسٹیمپ کے مرحلے سے گذار کر یہ بِل مسلمانوں کے لاکھ احتجاج کے باوجود ان پر تھوپ دیا جائے گا۔ اگرچہ اب بھی ہمارے پاس دنیاوی لحاظ سے ایک ہتھیار عدالتِ عظمی کا باقی ہے، اور اللہ کریم کی ذات سے امید ہے کہ ہمارے اکابر کی نمائندگی میں ہمیں دنیاوی عدالت میں بھی انصاف ملے گا۔ لیکن وہیں باطل کی پے درپے کامیابیاں ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیونکہ اس بِل کے منظور ہوجانے کے بعد ایک طبقہ کو بلاشبہ شہ ملے گی، اور ان کی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوششیں دن بدن تیز ہوجائیں گی۔ اس لئے مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اس بِل کے منظور ہونے کی خبر ملتے ہی ایک واقعہ ذہن میں گردش کرنے لگا جس میں مسلمانوں کے لیے بڑا سبق موجود ہے۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا :
ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ اس نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا کر حاضر کیا گیا۔ شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی : کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم : یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں۔
شہزادی : کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم : یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی : تو کیا اللہ نے آج ہمیں
تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم : یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی : تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم : نہیں،
شہزادی : کیسے؟
عالم : تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی : ہاں دیکھا ہے۔
عالم : کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے رکھے ہوتے ہیں؟
شہزادی : ہاں رکھے ہوتے ہیں۔ عالم : اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی دوسری طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر واپس آنے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی : وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے، تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم : وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی : جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم نے کہا : تم تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہو جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، اور ہماری گردنوں پر مسلط رکھے گا، جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔
محترم قارئین ! آج پھر مسلمانوں پر وہی حالات ہیں، مختلف قسم کے کتے ہم پر مسلط ہیں، اور جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی طرف واپس نہ آجائیں تب تک یہ ہم پر مسلط رہیں گے۔ لہٰذا ایسے حالات میں سب سے پہلی ضرورت یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں کہ یہی ایک در ہے جہاں تمام مسائل حل ہوتے ہیں۔
اس کے بعد سرِدست مسلمانوں کو چند باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ کالا قانون نافذ ہوجاتا ہے، تب بھی مسلمانوں کو اس سے کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے، بشرطیکہ مسلمان شریعتِ مطہرہ کے مطابق زندگی گذاریں۔ اس قانون کو بے اثر کرنے کے لیے سب سے پہلی کوشش یہ ہو کہ بیک وقت تین طلاق دینے کا سنگین گناہ معاشرے سے ختم ہو۔ اگر طلاق دینے کی نوبت آجائے تو صرف ایک طلاق دی جائے۔ جسے طلاق میں سب سے بہتر طلاق کہا گیا ہے، لیکن اگر کسی سے بیک وقت تین طلاق دینے کی غلطی ہو ہی جائے تو پھر ایسی صورت میں خاتون اور اس کے اہل خانہ کو چاہیے کہ اپنا معاملہ شریعت کے اصولوں کے مطابق حل کروائیں۔ نہ کہ کورٹ کچہری کے چکر لگائے جائیں۔ اس لئے کہ یہ قانون صرف مرد کے حق میں مضر نہیں ہے، بلکہ خواتین کے حق میں بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ جس کی وجہ سے عورت کی آخرت تو برباد ہوگی، دنیا میں بھی اسے بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
یہ چند باتیں جو عوام الناس کے کرنے کی ہیں، بقیہ معاملات ہماری نمائندہ تنظیمیں اور اکابر علماء بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ جزاھم اللہ خیرا
اللہ تعالٰی ہم سب کو سو فیصد شریعت پر عمل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں