*ذو الحجہ کے پہلے عشرہ میں بال اور ناخن کاٹنے کا حکم*
سوال :
محترم مفتی صاحب! ذو الحجہ کا چاند دکھنے کے بعد بال یا ناخن کاٹنے کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اس کے باوجود اگر بال یا ناخن کاٹ لے تو اسے گناہ ملے گا؟ ایسے شخص کو بُرا بھلا کہنا کیسا ہے؟ غیر صاحب نصاب کے لیے کیا حکم ہے؟ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : شبیر احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو شخص ذو الحجہ کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کرلینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ (1)
حدیث شریف میں موجود ممانعت اس لئے ہے تاکہ احرام والوں کی مشابہت حاصل ہوجائے، لیکن یہ ممانعت نھی تنزیہی ہے۔ چنانچہ بال ناخن کا نہ کٹوانا مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں۔ اور اس کے خلاف عمل کرنا یعنی بال و ناخن کا کاٹ لینا خلافِ اولیٰ یعنی بہتر نہیں ہے، کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر نکیر کرنا اور انہیں برا بھلا کہنا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ مستحب عمل پر نکیر کرنا بذاتِ خود مکروہ ہے۔ (2)
ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر صاحبِ نصاب صحابی سے فرمایا : تم اپنے بال بنوالو اپنے ناخن ترشوالو، لبوں کے بال کتروالو اور زیر ناف کے بال صاف کرلو، اللہ کے نزدیک تمہاری یہی قربانی ہو جائے گی، یعنی تمہیں قربانی کی مانند ثواب مل جائے گا۔(3)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو غیر مستطیع شخص قربانی نہ کررہا ہو اس کے لیے قربانی کی فضیلت حاصل کرنے کا موقع یہ ہے کہ وہ دس ذی الحجہ کو بال و ناخن کاٹ لے تو اسے بھی قربانی کا ثواب مل جائے گا، خواہ اس نے ایک ذی الحجہ کے بعد بال یا ناخن کاٹ لیا ہو، کیونکہ اس پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ چاند دکھنے کے بعد بال یا ناخن نہ کاٹے۔ یہ حکمِ استحبابی تو صرف قربانی کرنے والوں کے لیے ہے۔
نوٹ : اگر کوئی صاحب نصاب شخص چاند دِکھنے کے بعد بغل، زیر ناف بال اور ناخن کاٹنے سے رُکا رہا، لیکن درمیان میں ہی اس کے چالیس دن پورے ہوگئے تو اب اس کے لیے ان کا کاٹ لینا ضروری ہے۔ چالیس دن سے زائد رُکے رہنا جائز نہیں ہے۔
1) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ " (ترمذی، رقم : 1523)
2) قال الطیبی رحمہ اللہ من أصر علیٰ أمر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ۔ (مرقاۃ، باب الدعاء فی التشہد، الفصل الأول : ۲/۳۴۸)
3) عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍ وَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمِرْتُ بِیَوْمِ الْاَضْحٰی عِیْدًا جَعَلَہُ اﷲُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ قَالَ لَہُ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَرَأَیْتَ اِنْ لَّمْ اَجِدْ اِلَّا مَنِیْحَۃً اُنْثٰی اَفَاُضَحِّیَ بِھَا قَالَ لَا وَلٰکِنْ خُذْ مِنْ شَعْرِکَ وَاَظْفَارِکَ وَتَقُصُّ شَارِبکَ وَتَحْلِقُ عَانَتَکَ فَذَالِکَ تَمَامٌ اُضْحِیَتُکَ عِنْدَ اﷲِ۔ (ابوداؤد، رقم : 2789)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ذی القعدہ 1440
تسلی بخش جواب.... ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںایسے مضامین کو بہت زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریں🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
جواب دیںحذف کریںMashallah
جواب دیںحذف کریںحاجی کے لئے کیا حکم ھے ؟
جواب دیںحذف کریں