*قربانی کس پر واجب ہے؟*
*اہم مسئلہ*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! عام طور پر عوام کا ایک طبقہ اس مسئلے سے ناواقف ہے یا پھر تذبذب کا شکار ہے کہ قربانی کس پر واجب ہے؟ لہٰذا ایسے افراد کے لیے اس مسئلے کو آسان اور مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
قربانی ہر صاحبِ نصاب عاقل، بالغ، مقیم مرد وعورت پر واجب ہے۔ اور قربانی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے، لیکن یہ پرانا تولہ ہے جو تقریباً بارہ گرام کا ہوا کرتا تھا، موجودہ تولہ چونکہ دس گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا اب قربانی کا نصاب باسٹھ تولہ چاندی ہوگا۔ جس کی قیمت فی الحال ہمارے شہر مالیگاؤں کے اعتبار سے کم و بیش 55000 پچپن ہزار (امسال جون 2024 میں قریب قریب پورے ہندوستان میں نصاب کی قیمت یہی ہوگی) بنتی ہے۔ اتنی ملکیت رکھنے والا شخص صاحبِ نصاب اور شرعاً مالدار کہلاتا ہے۔ مطلب یہ کہ جس شخص کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، کھانے پینے کے سامان، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ کرایہ کے مکانات، زمین، مالِ تجارت، رکھے ہوئے کپڑے اور برتن، سونا، چاندی یا نقد رقم اتنی مقدار میں ہو کہ ان کی مالیت پچپن ہزار کو پہنچ جائے تو اس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے۔ نیز اس 55000 کی مالیت پر سال کا گزرنا بھی ضروری نہیں، بلکہ قربانی کے روز بھی اتنا مال کہیں سے آجائے اور وہ مالک بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔ البتہ اگر اس پر قرض ہوتو قرض کی رقم کل مالیت سے نکالنے کے بعد ایسا شخص صاحبِ نصاب باقی رہے گا تب اس پر قربانی واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔
گھر کے جتنے بالغ افراد اپنے طور پر 55000 کے مالک ہوں گے ان سب پر قربانی واجب ہوگی، خواہ مرد ہوں یا عورت، برسرروزگار ہوں یا نہ ہوں۔
بطورِ خاص ملحوظ رہے کہ قربانی کے لیے باقاعدہ بڑا جانور یا پھر بکری، بکرا خریدنا ضروری نہیں، بلکہ بڑے جانور میں سے ایک حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، پھر کم استطاعت رکھنے والے افراد کے لیے مزید سہولت اور آسانی یہ بھی ہے کہ بیرون شہرمعتبر جگہوں پر اجتماعی قربانی میں حصہ لے لیں، جہاں کافی کم قیمت مثلاً پندرہ سو، سولہ سو روپے میں اجتماعی قربانی کا معقول نظم ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض و واجبات کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
◼️حوالہ جات
قال الکاساني: ومنہا الغني: لما روي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ’’من وجد سعۃً فلیضح‘‘ شرط علیہ الصلاۃ والسلام السعۃ، وہي الغنی؛ ولأنا أوجبناہا بمطلق المال۔ ومن الجائز أن یستغرق الواجب جمیع مالہ فیؤدي إلی الحرج فلابد من اعتبار الغني، وہو أن یکون في ملکہ مائتا درہمٍ أو عشرون دینارًا أو شيء تبلغ قیمتہ ذٰلک سوی مسکنہ، وما یتأثث بہ وکسوتہ وخادمہ وفرسہ وسلاحہ وما لا یستغنی عنہ، وہو نصاب صدقۃ الفطر۔ (بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ، ۴/۱۹۶)
وأما شرائط الوجوب : منہا : الیسار، ہو ما یتعلق بہ وجوب صدقۃ الفطر دون ما یتعلق بہ وجوب الزکاۃ … والموسر في ظاہر الروایۃ، مَن لہ أتا درہم أو عشرون دینارًا، أو شيء یبلغ ذٰلک مسکنہ ومتاع مسکنہ ومرکوبہ وخادمہ في حاجتہ التي لا یستغنی عنہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/۲۹۲)
قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنا کیسا ہے۔ براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم محترم جناب مفتی صاحب بروقت مضمون لکھ کر حق ادا کر دیا
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںMashallah
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںJazakalla hu fid daraen
جواب دیںحذف کریںALLAH pak jazae khair ata kare
جواب دیںحذف کریں