پیر، 29 جولائی، 2019

میاں بیوی کا ایک پیالے میں دودھ پینا

*میاں بیوی کا ایک پیالے میں دودھ پینا*

سوال :

کیا میاں بیوی ایک پیالی سے دودھ نہیں پی سکتے؟ زید کی شادی کے دوسرے دن زید کی سسرال والے ناشتہ کرانے کے لئے  دودھ جلیبی لے کر آئے  زید اور اس کی دلہن کو ایک پیالی میں دودھ پینے کے لیے دیا گیا، زید کہتا ہے کہ ایک پیالی میں میاں بیوی کو دودھ نہیں پینا چاہیے کیونکہ ایک پیالی میں دودھ پینے سے بہن بھائی کا رشتہ ہوجاتا ہے،اور نکاح ٹوٹ جائے گا، کیا زید صحیح کہتا ہے؟
(المستفتی : سفیان احمد، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بہن بھائی کا رشتہ نسب سے ثابت ہوتا ہے یا پھر رضاعت سے۔ نسب سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے ماں باپ ایک ہوں یا کم از کم ماں یا باپ ایک ہوں۔ رضاعت سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت کی مدت یعنی ڈھائی سال سے کم عمر میں دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوا ہے تو اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے جس کی وجہ سے دو لوگوں میں بھائی بہن کا رشتہ قائم ہو۔

میاں بیوی کا ایک پیالے میں دودھ، پانی وغیرہ کچھ بھی پینا جائز بلکہ مستحسن کہلائے گا، اس لئے کہ یہ عمل زوجین کے درمیان محبت میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ مزید یہ کہ ایک پیالے میں دودھ اور پانی پینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ثابت ہے، روایات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

ابوداؤد شریف میں ہے :
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں (کھانے میں) ہڈی چوستی تھی اس حال میں کہ میں حائضہ ہوتی تھی پھر میں (وہ ہڈی) نبی ﷺ کو دیتی تو آپ ﷺ بھی اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا اور میں پانی پی کر آپ ﷺ کو دیتی تو آپ ﷺ بھی اپنا منہ اسی جگہ لگاتے جہاں میں نے لگایا تھا۔

مسند احمد میں ہے :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے وقت کا واقعہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، جسے آپ نے پہلے خود نوش فرمایا : پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ پیالہ پکڑا دیا، وہ شرما گئیں، چنانچہ انہوں نے شرماتے ہوئے وہ پیالہ پکڑ لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ مجھے دے دو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ نوش کرکے مجھے پکڑا دیا، میں بیٹھ گئی اور پیالے کو اپنے گٹھنے پر رکھ لیا اور اسے گھمانے لگی تاکہ وہ جگہ مل جائے جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہونٹ لگائے تھے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں زید کا قول بالکل باطل اور لاعلمی پر مبنی ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے قول سے رجوع کرے اور توبہ و استغفار کرے۔ نیز آئندہ پختہ علم کے بغیر دینی مسائل میں کچھ بھی کہنے سے اجتناب کرے۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِالْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كُنْتُ أَتَعَرَّقُ الْعَظْمَ وَأَنَا حَائِضٌ، فَأُعْطِيهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ فَمَهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي فِيهِ وَضَعْتُهُ، وَأَشْرَبُ الشَّرَابَ فَأُنَاوِلُهُ، فَيَضَعُ فَمَهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي كُنْتُ أَشْرَبُ مِنْهُ۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 259)

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ قَالَ حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ إِحْدَى نِسَاءِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ طَعَامًا فَقَالَ لَا أَشْتَهِيهِ فَقَالَتْ إِنِّي قَيَّنْتُ عَائِشَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جِئْتُهُ فَدَعَوْتُهُ لِجِلْوَتِهَا فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهَا فَأُتِيَ بِعُسِّ لَبَنٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَفَضَتْ رَأْسَهَا وَاسْتَحْيَا قَالَتْ أَسْمَاءُ فَانْتَهَرْتُهَا وَقُلْتُ لَهَا خُذِي مِنْ يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ فَأَخَذَتْ فَشَرِبَتْ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطِي تِرْبَكِ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلْ خُذْهُ فَاشْرَبْ مِنْهُ ثُمَّ نَاوِلْنِيهِ مِنْ يَدِكَ فَأَخَذَهُ فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ نَاوَلَنِيهِ قَالَتْ فَجَلَسْتُ ثُمَّ وَضَعْتُهُ عَلَى رُكْبَتِي ثُمَّ طَفِقْتُ أُدِيرُهُ وَأَتْبَعُهُ بِشَفَتَيَّ لِأُصِيبَ مِنْهُ مَشْرَبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر، 27591)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ذی القعدہ 1440

4 تبصرے: