*مقروض کا حج و عمرہ کرنا*
سوال :
مفتی صاحب! قرضدار کا حج وعمرہ کرنا کیسا ہے؟ کیا اس کا حج و عمرہ ادا ہوجاتا ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقروض کا حج و عمرہ ادا ہی نہیں ہوتا، لہٰذا آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلے کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں تاکہ عوام کی صحیح رہنمائی ہوجائے۔
(المستفتی : محمد فیضانِ، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر قرض خواہ کی طرف سے مہلت ہوتو مقروض کا حج و عمرہ کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ قرض خواہ کو بلاعذر ٹال مٹول کرکے حج یا عمرہ پر جانا بہتر نہیں ہے، کیونکہ حقوق اللہ کے مقابلے میں حقوق العباد کا نمبر پہلے ہوتا ہے۔
تاہم مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں مقروض کا حج و عمرہ ادا ہوجائے گا بشرطیکہ اس نے ارکانِ حج و عمرہ صحیح طور پر انجام دئیے ہوں۔ لہٰذا کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ مقروض کا حج و عمرہ سِرے سے ادا ہی نہیں ہوتا، بالکل غلط ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ توبہ و استغفار کریں اور آئندہ بغیر علم کے دینی مسائل میں رائے زنی کرنے سے کُلّی طور پر اجتناب کریں۔
أما في حق المقترض، فالأصل فیہ الإباحۃ، وذلک لمن علم من نفسہ الوفاء، بأن کان لہ مال مرتجی، وعزم علی الوفاء منہ وإلا لم یجز، ما لم یکن مضطرا، فإن کان کذلک وجب في حقہ لدفع الضرر عن نفسہ۔ (۳۳/۱۱۳، قرض ، الحکم التکلیفي للقرض، الموسوعۃ الفقہیۃ)
ووسعہ أن یستقرض ویحج الخ، أما إن علم أنہ لیس لہ جہۃ القضاء أصلاً فالأفضل عدم الاستقراض؛ لأن تحمل حقوق اللّٰہ تعالیٰ أخف من ثقل حقوق العباد۔ (غنیۃ الناسک، ۳۳/بحوالہ کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں