بدھ، 24 جولائی، 2019

حجاج و معتمرین کا مصلیانِ مسجد کو سلام بھیجنا

*حجاج و معتمرین کا مصلیانِ مسجد کو سلام بھیجنا*

سوال :

1) عازم حج کا سر زمین مقدس سے مقامی لوگوں کیلئے سلام بھیجنا کیسا ہے؟
2) کچھ لوگ یہاں رہ کر تو لوگوں کو سلام نہیں کرتے لیکن حج کیلئے جانے کے بعد سلام عرض کرتے ہیں اور اس کے پیچھے بہت سارے لوگوں کا مقصد نام و نمود ہوتا ہے تو ایسا کرنا کیسا ہے؟
3) واٹس ایپ پر ایک پوسٹ چل رہی ہیکہ اس طرح کے سلام پر پابندی عائد کی جائے کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟
(المستفتی : انصاری اسامہ، قلعہ، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کو غائبانہ سلام بھیجنا جائز ہے، احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔

ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے کہ ایک صحابی رسول فرماتے ہیں مجھ کو میرے والد نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجتے ہوئے کہا کہ تم نبی ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ کو سلام عرض کرو۔  اپنے والد کے حکم پر میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرے والد نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم اور تمہارے باپ پر سلامتی ہو۔

بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المؤمنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت جبرئیل علیہ السلام کا سلام پیش کیا تھا۔

معلوم ہوا کہ حجاج و معتمرین کا مصلیانِ مسجد کو سلام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، لیکن اسے فرض، واجب یا سنت نہ سمجھا جائے۔ جیسا کہ بعض حجاج اور معتمرین کے اہتمام سے گمان ہوتا ہے۔ پھر مسجد میں اس کے اعلان میں بھی اس بات کا بطور خاص اہتمام ہو کہ مسبوق حضرات کی نماز میں خلل نہ ہو، ورنہ کراہت کا ارتکاب لازم آئے گا۔ مثلاً جمعہ کی نماز میں اعلان کردینا مناسب ہوگا کہ جمعہ کی نماز میں عام طور پر مسبوق نہیں ہوتے۔

2) مقام پر رہ کر لوگوں کو سلام نہ کرنا اور حج یا عمرہ کے لئے جانے کے بعد وہاں سے سلام بھیجنا یہ تو سراسر رِیاکاری اور نام و نمود ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو اس عمل سے باز آجانا چاہیے، ورنہ ان کے حج اور عمرے بروز حشر ان کے منہ پر مار دئیے جائیں گے۔

3) موجودہ دور میں جبکہ لوگوں کے اندر اخلاص و للہیت سلف صالحین کے درجہ کا نہیں رہا، لہٰذا بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کی شرعی حیثیت کو واضح کرکے اس کو بتدریج بند کردیا جائے۔

عن غالب قال: إنا لجلوس بباب الحسن إذ جاء رجلٌ، فقال: حدثني أبي عن جدي، قال: بعثني أبي إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ائتہٖ فاقرأہ السلام، قال: فأتیتہ، فقلتہ: إن أبي یقرئک السلام، فقال: علیک وعلی أبیک السلام۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأدب / باب في الرجل یقول: فلان یقرئک السلام رقم: ۵۲۳۱)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا حدثتْہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہا: إن جبرئیل یقرئک السلام، قالت : وعلیہ السلام ورحمۃ اللّٰہ۔ (صحیح البخاري، کتاب الاستئذان/باب إذا قال: فلان یقرئک السلام ۲؍۹۲۳ رقم: ۶۲۵۳)

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی القعدہ 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں