*قربانی کس پر واجب ہے؟*
سوال :
مفتی صاحب قربانی واجب ہونے کا نصاب کیا ہے؟ کیا زکوٰۃ، صدقۂ فطر اور قربانی کا نصاب ایک ہی ہے؟ یا کچھ فرق ہے؟ واضح فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آتا ہے کہ "مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا" جو شخص قربانی کی وسعت رکھتا ہو اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔
شارحینِ حدیث اور فقہاء کرام نے وسعت کی تشریح بقدر نصاب مالیت سے کی ہے، جو منشاء شریعت کے عین مطابق ہے۔ اِس لئے کہ شریعت میں غنا اور مالداری کا معیار بقدر نصاب مالیت کو بتلایا گیا ہے۔
لہٰذا جس شخص کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، کھانے پینے کے سامان، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ کرایہ کے مکانات، زمین، رکھے ہوئے کپڑے اور برتن، سونا، چاندی یا رقم اتنی مقدار میں ہو کہ ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچ جائے تو اس شخص پر عید الفطر کے دن صدقۂ فطر دینا اور ایام قربانی میں قربانی کرنا واجب ہے۔ جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے اس پرقربانی بھی واجب ہے، البتہ زکوٰۃ کے واجب ہونے میں کچھ فرق ہے، زکوٰۃ میں مالِ نامی ہونا لازمی ہے، جبکہ صدقۂ فطر اور قربانی میں یہ ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کا وجوب سال گذرنے کے بعد ہوتا ہے، جبکہ صدقۂ فطر اور قربانی فوراً واجب ہوتے ہیں۔ البتہ اس معاملہ میں زکوٰۃ اور صدقۂ فطر میں یکسانیت ہے کہ یہ مال قرض اور حاجت اصلی سے زائد ہونا چاہئے، ورنہ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر اور قربانی واجب نہ ہوگی۔
قال الکاساني: ومنہا الغني: لما روي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ’’من وجد سعۃً فلیضح‘‘ شرط علیہ الصلاۃ والسلام السعۃ، وہي الغنی؛ ولأنا أوجبناہا بمطلق المال۔ ومن الجائز أن یستغرق الواجب جمیع مالہ فیؤدي إلی الحرج فلابد من اعتبار الغني، وہو أن یکون في ملکہ مائتا درہمٍ أو عشرون دینارًا أو شيء تبلغ قیمتہ ذٰلک سوی مسکنہ، وما یتأثث بہ وکسوتہ وخادمہ وفرسہ وسلاحہ وما لا یستغنی عنہ، وہو نصاب صدقۃ الفطر۔ (بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ، ۴؍۱۹۶ زکریا)
وأما شرائط الوجوب: منہا: الیسار، ہو ما یتعلق بہ وجوب صدقۃ الفطر دون ما یتعلق بہ وجوب الزکاۃ … والموسر في ظاہر الروایۃ، مَن لہ أتا درہم أو عشرون دینارًا، أو شيء یبلغ ذٰلک مسکنہ ومتاع مسکنہ ومرکوبہ وخادمہ في حاجتہ التي لا یستغنی عنہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، ۵؍۲۹۲ زکریا)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی القعدہ 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں