اتوار، 21 جولائی، 2019

حاجی پر قربانی کا حکم

*حاجی پر قربانی کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حاجی پر قربانی کیا حکم ہے؟ اس کے متعلق تمام احکام آسان انداز میں بیان فرمادیں، نوازش ہوگی۔
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جو شخص حجِ تمتع یا قِران کررہا ہو اس پر حج کی قربانی واجب ہوتی ہے، جسے دمِ شکر بھی کہا جاتا ہے، اس کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کا حدودِ حرم میں دینا واجب ہے۔ جبکہ حجِ افراد میں دمِ شکر واجب نہیں ہے۔

حج کی تینوں قسموں میں سے کسی بھی قسم کا حج کرنے والے پر مالی قربانی واجب ہوتی ہے، بشرطیکہ حاجی صاحبِ نصاب ہو اور مسافر نہ ہو۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر حاجی یوم النحر میں مسافر ہے، یعنی اس کی مکہ معظمہ (بشمول منیٰ ومزدلفہ) میں ۱۵؍دن قیام کی نیت نہیں ہے تو اس پر مالی قربانی واجب نہیں، لیکن اگر ۱۵؍دن قیام کی نیت ہے اور وہ صاحبِ نصاب بھی ہے تو اس پر مالی قربانی واجب ہوگی۔

معلوم ہوا کہ مقیم صاحبِ نصاب متمتع اور قارن پر دو قربانی واجب ہوگی، ایک دمِ شکر، دوسرے مالی قربانی۔ جبکہ حجِ افراد کرنے والے پر صرف مالی قربانی واجب ہوگی، اور مالی قربانی کا حکم یہ ہے کہ یہ کہیں بھی کی جاسکتی ہے، خواہ حرم میں کی جائے یا حاجی کے مقام پر، یا اور کہیں، سب درست ہے۔

واما واجباتہ فستۃ : والذبح للقارن والمتمتع۔ (بدائع الصنائع : ۲؍۳۱۶)

فلا تجب علی حاج مسافر، فأما أہل مکۃ فتلزمہم وإن حجوا۔ (شامي : ۹؍ ۴۵۷)

قال " ولا يجوز ذبح الهدايا، إلا في الحرم " لقوله تعالى في جزاء الصيد: {هَدْياً بٰلِغَ الْكَعْبَةِ} (المائدة:۹۵) فصار أصلا في كل دم هو كفارة، ولأن الهدي اسم لما يهدى إلى مكان، ومكانه الحرم، قال عليه الصلاة والسلام: " منى كلها منحر، وفجاج مكة كلها منحر۔ (الهداية : ۱؍۱۸۱، کتاب الحج، باب الھدي)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی القعدہ 1440

1 تبصرہ: