*پیاز اور لہسن کھانے کا شرعی حکم*
سوال :
مفتی صاحب پیاز اور لہسن کھانا کیسا ہے؟ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیاز کھانا جائز نہیں ہے کیا یہ بات درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پیاز اور لہسن کھانا حرام نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے۔ وہ بھی اُس وقت جبکہ کچی پیاز یا لہسن کھانے کے فوراً بعد مسجد میں آنے کی ضرورت ہو، کیونکہ کچی پیاز اور لہسن کھانے سے منہ میں ایک طرح کی بدبو محسوس ہونے لگتی ہے، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کچی پیاز اور لہسن کھاکر مسجد میں آنے کو منع فرمایا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی کچی پیاز یا لہسن کھائے اور اس کے بعد مسجد آنا ہوتو اچھی منہ صاف کرکے بدبو زائل کرلے۔
البتہ پکی ہوئی پیاز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تناول فرمانا ثابت ہے، حضرت ابوزیاد کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ سے (پکی ہوئی) پیاز کے بارے میں پوچھا گیا (کہ وہ حرام ہے یا حلال؟) تو انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے (اپنی زندگی میں) جو سب سے آخری کھانا کھایا تھا اس میں (پکی ہوئی) پیاز تھی۔
نیز ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے لہسن کھانے سے منع فرمایا الاّ یہ کہ وہ پکا ہوا ہو۔
معلوم ہوا کہ پکی ہوئی اور کچی پیاز اور لہسن کا حکم الگ الگ ہے۔ لہٰذا پکی ہوئی پیاز یا لہسن کھاکر مسجد جانا بلاکراہت جائز ہے، کیونکہ ان میں بدبو نہیں ہوتی جو کراہت کا سبب ہے۔
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے معترضین کو صحیح رہنمائی مل جائے گی اور ان کا اعتراض رفع ہوجائے گا۔ ان شاءاللہ
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْيُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ زَعَمَ عَطَاءٌ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ زَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا ". أَوْ قَالَ : " فَلْيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ ". وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقِدْرٍ فِيهِ خَضِرَاتٌ مِنْ بُقُولٍ، فَوَجَدَ لَهَا رِيحًا فَسَأَلَ، فَأُخْبِرَ بِمَا فِيهَا مِنَ الْبُقُولِ، فَقَالَ : " قَرِّبُوهَا". إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ كَانَ مَعَهُ، فَلَمَّا رَآهُ كَرِهَ أَكْلَهَا، قَالَ : " كُلْ فَإِنِّي أُنَاجِي مَنْ لَا تُنَاجِي۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 855)
قولہ: وأکل نحو ثوم، أي کبصل ونحوہ مما لہ رائحۃ کریہۃٌُ للحدیث الصحیح في النہي عن قربان آکل الثوم والبصل المسجد الخ۔ (شامي، طلب في الغرس في المسجد، ۲؍۴۳۵)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ أَبُو وَكِيعٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ شَرِيكٍ ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ : نُهِيَ عَنْ أَكْلِ الثُّومِ إِلَّا مَطْبُوخًا۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3828)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا ح و حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ بَحِيرٍ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي زِيَادٍ خِيَارِ بْنِ سَلَمَةَ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ الْبَصَلِ فَقَالَتْ إِنَّ آخِرَ طَعَامٍ أَکَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ فِيہِ بَصَلٌ۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3829)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی القعدہ 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں