جمعہ، 19 جولائی، 2019

گوہ (گھوڑپڑ) کا استعمال اور اس کی تجارت کا حکم

*گوہ (گھوڑپڑ) کا استعمال اور اس کی تجارت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ گھوڑپڑ کھانا کیسا ہے؟ اس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے تیل کا بدن پر استعمال کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو خوب خوب جزاء عطا فرمائے۔ آمین
(المستفتی : عبدالحمید، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : گھوڑپڑ جسے اردو میں گوہ، عربی میں ضَبّ اور فارسی میں سوسمار کہا جاتا ہے۔ احناف کے نزدیک اس کا کھانا جائز نہیں ہے، اگرچہ بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لاآکلہ و لا أحرمہ نہ میں اسے حرام قرار دیتا ہوں اور نہ کھاتا ہوں۔ لیکن یہ حکم ابتدائی دور کا ہے، اس لئے کہ بعض دیگر روایات سے اس کے استعمال کی ممانعت معلوم ہوتی ہے۔

ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے  گوہ  کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔

مؤطا امام محمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہیں سے تحفۃً گوہ  بھیجا گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا تو آپ نے اس کے کھانے سے منع فرمایا، پھر ایک سائل آیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چاہا کہ یہ اس سائل کو دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :  جو تم خود نہیں کھاتیں، کیا وہ دوسروں کو کھلانا چاہتی ہو؟ (1)

معلوم ہوا کہ ابتداء میں گوہ  کی ممانعت نہیں تھی، لیکن بعد میں اس سے منع کردیا گیا۔

گوہ چونکہ ضرورت کے وقت مثلاً دوا کے طور پر خارجی استعمال میں مفید اور کارآمد ہے۔ لہٰذا اس کی تجارت جائز ہے۔(2)

حرام جانوروں کا گوشت اور چربی ناپاک ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس سے بننے والا تیل بھی ناپاک ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں گوہ سے بنایا گیا تیل ناپاک ہے، اور اس تیل کے بارے میں حکم یہ ہے کہ بطورِ علاج اس کا خارجی استعمال جائز ہے لیکن جسم کے جس حصے پر اس کی مالش کی جائے اسے نماز سے پہلے اس قدر دھولیا جائے کہ پانی صاف نکلنے لگے، اگرچہ چکناہٹ باقی ہو، اس کو دھوئے بغیر نماز درست نہیں ہوگی۔(3)

1) حدثنا محمد بن عوف الطائي، أن الحكم بن نافع، حدثهم حدثنا ابن عياش، عن ضمضم بن زرعة، عن شريح بن عبيد، عن أبي راشد الحبراني، عن عبد الرحمن بن شبل: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل لحم الضب»۔ (سنن أبي داؤد، 3/ 354)

أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُ «أُهْدِيَ لَهَا ضَبٌّ، فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ عَنْ أَكْلِهِ فَنَهَاهَا عَنْهُ» ، فَجَاءَتْ سَائِلَةٌ فَأَرَادَتْ أَنْ تُطْعِمَهَا إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتُطْعِمِينَهَا مِمَّا لا تَأْكُلِينَ؟»۔ (مؤطا امام محمد، حدیث 647)

واما الضب والزبور والسلحفاہ والحشرات  فلانھا من الخبائث۔(البحر  الرائق، ٨/۱۹۵)

2) وصح بیع الکلب والفہد والفیل والقرد والسباع بسائر أنواعہا حتی الہرة وکذا الطیور سوی الخنزیر وہو المختار للانتفاع بہا وبجلدہا۔ (۷/۴۷۸، الدر المختار، کتاب البیوع، باب المتفرقات)

3) واذا غمس الرجل یدہ  فی السمن  النجس او اصاب ثوبہ ثم غسل الید او الثوب بالماء من غیرحرص واثر السمن باق علی یطھر وبہ اخذ الفقیہ ابو اللیث وھو الاصح، ھکذا فی الذخیرۃ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، ١/٤٢)

وکما یطہر لحمہ یطہر شحمہ أیضًا ، حتی لو وقع في الماء القلیل لا یفسدہ ، وہل یجوز الانتفاع بہ لغیر الأکل ، قیل : لا یجوز اعتبارا بالأکل ، وقیل : یجوز کالزیت إذا خالطہ شحم المیتۃ والزیت غالب ۔ (تبیین الحقائق، ۶/۴۶۹، کتاب الذبائح)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی القعدہ 1440

3 تبصرے:

  1. شكراً جزيلاً....
    ہم آپ کے بہت بہت مشکور ہیں کہ آپ ایسے پیچیدہ لیکن اہمیت کے حامل مسائل پر بیباک فتاویٰ ارسال کرتے رہتے ہیں ..

    جواب دیںحذف کریں