*عیدین کی نماز کا مستحب وقت*
سوال :
کیا فرماتے ہیں کہ مفتیان کرام اور علماء دین شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عیدین کی نماز کا مسنون ومستحب وقت کون سا ہے؟ اور اس میں کتنی تاخیر کی گنجائش ہے؟
(المستفتی : مختار احمد جمالی، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلوع آفتاب سے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد عیدین کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور نصف النہار عرفی یعنی زوال تک باقی رہتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمولِ مبارک تھا کہ جب سورج ایک نیزہ یا دو نیزہ بلند ہوجاتا تھا تو آپ عید کی نماز ادا فرماتے تھے، نیز یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحٰی کی نماز میں جلدی کرنے اور عید الفطر کی نماز میں قدرے تاخیر کرنے کا حکم دیا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عید الاضحٰی میں لوگ جلدی نماز سے فارغ ہو کر قربانی وغیرہ انجام دیں گے، اور عید الفطر میں قدرے تاخیر اس لئے کی گئی تھی تاکہ صدقۂ فطر ادا کرنے کے لئے کچھ وقت مل جائے۔
چنانچہ صاحب کتاب النوازل لکھتے ہیں :
مستحب یہ ہے کہ سورج طلوع ہونے کے ایک دو گھنٹے کے اندر جس وقت بھی لوگوں کے لئے جمع ہونا آسان ہو، نماز عیدالفطر پڑھ لی جائے، اور عید الاضحی کا وقت عید الفطر کے مقابلہ میں کچھ پہلے رکھا جائے۔
لہٰذا طلوع آفتاب کے بعد دو گھنٹے کے اندر اندر نماز عیدالفطر ادا کرلینا چاہیے، اس میں مزید تاخیر کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو ناپسند کیا اور کہا : ہم تو اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔ (ابوداؤد)
أما الابتداء فلأنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یصلي العید والشمس علی قید رمح أو رمحین…۔ ویستحب تعجیل صلاۃ الأضحیٰ لتعجیل الأضاحي، وفي المجتبیٰ: ویستحب أن یکون خروجہ بعد إرتفاع قدر رمح حتی لا یحتاج إلی انتظار القوم، وفي عید الفطر یؤخر الخروج قلیلا، کتب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی عمرو بن حزم عجل الأضحی وأخر الفطر۔ (البحر الرائق ۲؍۱۶۰ کوئٹہ)
عن أبي الحویرث أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کتب إلی عمرو بن حزم وہو بن جران عجل الأضاحي وأخر الفطر وذکر الناس۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي / باب الغدوّ إلی العیدین۵؍۵۹ رقم: ۶۲۴۲)
عن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي بنا یوم الفطر والشمس علی قید رمحین، والأضحی علی قید رمح۔ (إعلاء السنن / باب ما جاء في وقت صلاۃ العیدین۸؍۱۲۴)
والسنۃ في صلاۃ الفطر التاخیر إلی ارتفاع الشمس، والسنۃ في یوم النحر التعجیل في أداء الصلاۃ لیشتغل الناس بأمور القرابین ولکن تعجیلا لا یکون سببا لحرمان المسلمین۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۶۰۲ زکریا، شامي ۳؍۵۳ زکریا، فتح القدیر ۲؍۷۳، تبیین الحقائق ۱؍۵۴۰، حاشیۃ الطحطاوي ۲۹۰)
حدثنا أحمد بن حنبل، حدثنا أبو المغيرة، حدثنا صفوان، حدثنا يزيد بن خمير الرحبي، قال:خرج عبد الله بن بسر صاحب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مع الناس في يوم عيد فطر، أو أضحى، فأنكرإبطاء الإمام، فقال: إنا كنا قد فرغنا ساعتنا هذه، وذلك حين التسبيح۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١١٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رمضان المبارک 1439
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں