*کیا امامت، اذان، اور تعلیمِ قرآن کی اجرت جائز نہیں؟*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام و خطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! ایک بے نامی تحریر دو چار دنوں سے واٹس ایپ کے بعض حلقوں میں گردش کررہی ہے، جس میں ائمہ، مؤذنین اور معلمینِ دینی مدارس و مکاتب کی تنخواہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو محرر کے ناقص علم پر دلالت کرتا ہے، اس تحریر میں چند قرآنی آیات اور احادیث کو بے محل رکھ کر اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مذکورہ افراد کا تنخواہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ پھر ان حضرات کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے انہیں کام چور تک کہا گیا ہے، اور یہ احمقانہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ علماء کو پاورلوم چلاکر، تراشن بھرکر، ڈوری لگاکر، گیرج، گوشت اور سبزی کی دوکان پر کام کرکے روزی کمانا چاہیے اور امامت، اذان دینے، اور دینی مدارس میں خدمت بغیر تنخواہ کے کرنا چاہیے۔ اس تحریر کے منظر عام پر آنے کے بعد بعض متعلقین نے یہ درخواست کی کہ اس کا رد لکھا جائے، پھر یہ تحریر بھی اصل میں ایسی زہریلی اور خطرناک ہے جس کی وجہ سے اس کا رد لکھ کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے، ورنہ سادہ لوح عوام اس تحریر کی وجہ سے وقتی طور پر ہی سہی غلط فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
محترم قارئین ! سب سے پہلے اجرت علی الطاعات یعنی امامت، اذان، اور تعلیمِ قرآن کی تنخواہ کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے، اس کے بعد ان شاء اللہ اس تحریر کا جائزہ لیا جائے گا۔
فقہاء کے یہاں مذکورہ افراد کی تنخواہ کا مسئلہ مشہور مسئلہ ہے، اور اس مسئلہ میں علماء کے دو دَور پائے جاتے ہیں، حضراتِ متقدمین کا دَور، اور حضراتِ متأخرین کا دَور۔
1) حضراتِ متقدمین (وہ علماء جو تیسری صدی کے ختم ہونے سے قبل گزرے ہیں اُن) کا دَور : اس دور میں علماء کا اس مسئلہ کے بارے میں اختلاف رہا ہے، چنانچہ امام ابو حنیفہؒ، صاحبینؒ اور امام احمدؒ کے ایک قول کے مطابق، اُجرت علی الطاعات کو ناجائز کہتے تھے، جبکہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ اس کو جائز فرماتے تھے۔ اس اختلاف کا سبب احادیث و روایات کا اختلاف ہے، بعض روایات سے جواز ثابت ہوتا ہے اور بعض روایات سے عدمِ جواز ثابت ہوتا ہے۔ اور ایک مسئلہ سے متعلق جب روایات مختلف ہوں تو حضراتِ محدثین و مجتہدین، اُصولِ حدیث کو سامنے رکھ کر اُس اختلاف و تعارض کو ختم کرتے ہیں، چنانچہ مذکورہ مسئلہ میں بھی جانبین کی طرف سے ایسا ہی ہوا ہے۔
2) حضراتِ متأخرین (تیسری صدی کے بعد کے علماء) کا دور : اِس دور کے علماء اور خاص کر حضراتِ حنفیہ نے اپنے خدا داد ملکہِ اجتہاد کی بنیاد پر حالاتِ زمانہ کو دیکھتے ہوئے ضرورت کی وجہ سے اہلِ مدینہ کے مذہب پر فتوی دیا، پھر یہاں سے فقہاء امت یعنی ائمہ اربعہ کا اس مسئلے میں اتفاق ہوچکا ہے کہ مذکورہ اعمال کی اجرت کا لین دین جائز ہے۔
ضرورت کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے زمانے کے لوگوں میں للّٰہیت اور فکرِ آخرت کا غلبہ اور دین وامورِ دین میں رغبت تھی، اس وجہ سے وہ لوگ خالص ثواب کی نیت سے یہ اعمال انجام دیتے تھے، اسی طرح جب بیت المال صحیح قائم تھا تو وہاں سے ان تمام حضرات کے وظائف مقرر تھے اور وہ حضرات یکسو ہوکر دین کی خدمت میں مشغول تھے، لیکن زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اُمورِ دین کے سلسلے میں سُستی پیدا ہوتی گئی اور اخلاص اُس درجہ کا نہ رہا، اسی طرح بیت المال کا حال خراب ہوگیا اور وہاں سے مستحقین کو وظائف دینا بند ہوگئے، اب ایسا مرحلہ آیا کہ اگر اُجرت علی الطاعات کی اِجازت نہ دیجاتی تو شعائرِ دین کے ضائع ہونے کا اندیشہ تھا، کیونکہ دین کی خدمت کرنے والے اگر حقوقِ واجبہ کی ادائیگی کے لیے کوئی ذریعہِ معاش اختیار کریں تو اپنے اوقات کو دین کی اشاعت کے لیے صرف نہ کرسکیں گے، جس کی وجہ سے شعائرِ دین ضائع ہوجائیں گے۔ مطلب اگر باقاعدہ امام، مؤذن اور معلم کا تقرر نہ کیا جائے تو مساجد میں اذان و جماعت کے اوقات اور دینی تعلیم کا نظم درہم برہم ہوجائے گا۔ (مستفاد :دین کے کاموں کی اجرت لینا کیسا ہے؟، صفہ دارالافتاء)
معزز قارئین ! اب کچھ باتیں محرر سے مخاطب ہوکر تحریر کرتے ہیں، اور ان سے جواب طلب کرتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ محرر پیشے سے ڈاکٹر ہیں، سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب سے درخواست ہے کہ وہ ائمہ و علماء کی تنخواہ سے متعلق اپنی غلط فہمی کو دور کرلیں، اور ایمانداری سے تجزیہ کریں تب آپ کو معلوم ہوگا کہ شہر کے ائمہ و مؤذنین کی تنخواہ ماہانہ پانچ سے دس ہزار کے درمیان ہے، اور ان میں بھی گنتی کی چند مساجد وہ ہیں جن میں تنخواہ سات ہزار کے اوپر ہے، ورنہ اکثر مساجد میں پانچ سے سات ہزار کے درمیان تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد مدرسین کی تنخواہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پانچ سے آٹھ گھنٹے مدرسہ میں وقت دینے والے مدرسین کی تنخواہ تین سے چھ ہزار کے درمیان ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مدرس امام کی تنخواہ عام طور پر دس سے بارہ ہزار بنتی ہے۔ یہ تو اتنی ہی رقم ہے جو ایک پاور لوم مزدور، حمال اور مستری کمالیتا ہے۔ پھر اگر کوئی عالم/حافظ جو امام نہ ہو اس کی مالی حالت تو ان لوگوں سے زیادہ خراب ہوتی ہے، کیونکہ آٹھ گھنٹے مدرسہ میں وقت دینے کے باوجود وہ ماہانہ آٹھ ہزار نہیں کما سکتا۔ ان کے اخراجات کس طرح پورے ہوتے ہیں وہی جانتے ہیں، پھر بے چارے مؤذنین کی حالت تو ان سے زیادہ تشویشناک ہے۔ بس پورا معاملہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چل رہا ہے، ورنہ ظاہری اسباب تو بالکل ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔
آپ نے آگے لکھا ہے کہ امام مالدار سیٹھ گھرانے کے بچوں کو ان کے گھر جاکر پڑھا کر مزید چار سے بارہ ہزار ماہانہ حاصل کرتا ہے۔ یہاں تو آپ نے انتہائی مبالغہ سے کام لیا ہے بلکہ جھوٹ کا سہارا لیا ہے، اگر کہیں اتنی فیس دی جاتی ہو براہ کرم ہمیں ضرور مطلع فرمائیں۔ 😉
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بتائیں کہ اگر کوئی مدرس امام عموماً سات گھنٹے مدرسہ میں اور تین گھنٹہ امامت کے لیے یعنی چوبیس گھنٹوں میں سے دس گھنٹہ دین کی خدمت کے لیے وقف کرے گا اور اس پر کوئی اجرت نہیں لے گا تو وہ اپنے اہل و عیال کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کب اور کہاں سے کرے گا؟ کس وقت یہ علماء و ائمہ لوم چلائیں گے، ڈوری لگائیں گے، گیرج پر کام کریں گے؟ گوشت، سبزی اور دیگر اشیاء کی تجارت کب اور کس طرح کریں گے؟ کیا آپ اپنے دواخانے کے بیت المال سے ان کی کفالت کریں گے؟ کیا ان غریب ائمہ و علماء کے لیے کوئی ایسا پیشہ یا تجارت ہے جس میں یہ افراد دو تین گھنٹوں میں ماہانہ ہزاروں کمالیں اور ان کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوجائے۔ اگر ہوتو ضرور بتائیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا صحابہ رضی اللہ عنھم نے امامت اور تعلیمِ قرآن کو روزگار بنایا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی ائمہ و علماء کو شوق نہیں ہوا ہے کہ وہ اسے ذریعہ معاش بنائیں، اگر موجودہ زمانے میں بیت المال کا نظم ہوتا اور ان حضرات کے وظیفے مقرر ہوتے تو اجرت کی ضرورت کیونکر محسوس ہوتی؟ آپ کو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا وہ تاریخی مکالمہ تو ضرور یاد ہوگا جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا تھا کہ آپ تجارت کریں گے تو حکومت کے کام کاج کون دیکھے گا؟ پھر اسی بنیاد پر بیت المال سے آپ کا وظیفہ مقرر کیا گیا، کیا آپ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر بھی اجرت علی الطاعات لینے کا حکم لگاکر معاذ اللہ مطعون کریں گے؟ کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ امورِ خلافت بھی دینی امور اور عبادت کی قبیل سے ہیں۔
چلیے آگے بڑھتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور ہے، آپ نے معلمین کی تنخواہیں مقرر کی تھیں۔ کنز العمال میں روایت موجود ہے۔
ثلاثۃ کانوابالمدینۃ یعلمون الصبیان وکان عمربن الخطاب یرزق کل واحد منھم خمسۃ عشر درھما کل شھر۔۔ (کنزالعمال، 9178)
اسی طرح قرآن اور دینی علوم کی تعلیم پر دوسرے افراد کے لئے حضرت عمر نے جو وظائف مقرر کئے تھے ان کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ (ثم فرض للناس علی منازلهم وقراتھم القرآن الخ۔ حضرت عمر نے لوگوں کے مرتبے کے مطابق اور قرآن پڑھنے پر وظیفہ مقرر کیا۔ (فتوح البلدان، ص 438)
نیز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ملتا ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح مؤذنوں، اماموں اور معلموں کے وظائف مقرر کئے۔ (سیرۃ العمرین، بحوالہ خیر القرون کی درسگاہیں، ص341)
مذکورہ خلفاء راشدین کے بعد بھی بیت المال سے ائمہ، مؤذنین، ومعلمين کو وظیفہ ملتا رہا، لیکن جب اسلامی حکومتوں میں استحکام نہیں رہا اور بیت المال کا نظام ختم ہوگیا وظائف بند ہوگئے تب تیسری صدی ہجری کے بعد حنفی فقہاء نے بھی اجرت کے جواز کا فتوی دیا جبکہ دیگر ائمہ تو پہلے سے اس کے جواز کے قائل تھے، جس کے بعد سے اس مسئلہ پر اتفاق ہوگیا ہے، لہٰذا اب اگر کوئی اس میں اختلاف کرے تو اس کے علم یا پھر عقل کا قصور ہے۔
ڈاکٹر صاحب آپ ہمیں بتائیں کیا ان وظائف کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو اُجرت لینے ضرورت تھی؟ بلاشبہ نہیں تھی۔ پھر اس مسئلے میں آپ کا صحابہ کرام کے عمل کی دلیل طلب کرنا لاعلمی ہے یا پھر جان بوجھ کر آپ عوام کو گمراہ کرکے علماء و ائمہ سے بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہر دو صورت میں آپ کا اس موضوع پر قلم اٹھانا سوائے امت میں انتشار پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ جس کے لیے آپ کو عنداللہ جواب دہ ہونا پڑے گا۔
آپ نے آگے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عثمان کا ذکر کیا ہے کہ یہ حضرات تجارت کیا کرتے تھے۔ بلاشبہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے ایسے بہت سے افراد گذرے ہیں جو تجارت کے ساتھ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے ہیں، لیکن موجودہ دور کو اُس زمانے پر قیاس کرنا سراسر نا انصافی ہے۔ اِس معاملے میں دونوں زمانوں کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ آئیے ہم ان دونوں ادوار کا موازنہ کرکے دیکھ لیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ ایسے افراد آج کل کی طرح تجارت میں پورا دن مشغول نہیں رہتے تھے، بلکہ تھوڑا سا وقت ان کی روزی روٹی کے لیے کافی ہوجاتا تھا، اس کے بعد وہ بقیہ اوقات دین کی خدمت میں لگایا کرتے تھے۔ اس کی اہم وجہ ایک تو یہ ہے کہ ان کی روزی میں بہت برکت ہوا کرتی تھی، جو آج بھی ائمہ، مؤذنین و معلمین کی روزی میں ہے تب ہی تو ناکافی تنخواہوں میں بھی گذارا ہورہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے دور ہونے کی وجہ سے پہلے جیسی برکت نہیں رہی۔ دوسری یہ کہ اُس وقت کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہوا کرتی تھی، رُوکھا سُوکھا کھانا، رہنے کے لیے معمولی گھر، اور پہننے کے لئے بے تکلف لباس، جبکہ اس کے بالمقابل موجودہ دور میں مادی طور پر طرز زندگی اور رہائش کا معیار بہت بلند ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے آج کل کی ضروریات مِثل شیطان کی آنت کے پھیل گئی ہیں، اور دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ضروریات کے تخمینے کو طویل سے طویل تر کردیا ہے جس کا اندازہ ہر ذمہ دار صاحبِ عیال شخص آسانی سے کرسکتا ہے، گھریلو اخراجات، سواری، بچوں کی تعلیم کا خرچ، اور فی زمانہ چھوٹی چھوٹی بیماریوں پر ڈاکٹر حضرات کے سینکڑوں اور ہزاروں کے بل، ان اخراجات سے قدیم اسلاف بے نیاز تھے، لہٰذا ان دونوں زمانوں کو ایک دوسرے پر قیاس کرنا خلافِ عقل ہے۔
ایک جگہ آپ نے تبلیغی جماعت کے احباب سے ائمہ کرام کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ائمہ سے زیادہ وقت تبلیغی جماعت کے احباب مسجد میں دیتے ہیں، یہاں بھی آپ نے ان دو حضرات کو ایک صف میں کھڑا کردیا ہے جن کا ایک دوسرے سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، کیونکہ خود قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ علماء اور غیر علماء کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ تبلیغی جماعت کے احباب کی قربانیاں اپنی جگہ مسلّم ہیں، لیکن ان کا علماء کرام سے موازنہ کرنا قطعاً درست نہیں ہے، اس لئے کہ دونوں کے کام کا میدان الگ ہے، علماء کرام درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے ہیں، غیر عالم تبلیغی احباب چاہ کر بھی یہ کام نہیں کرسکتے، جبکہ علماء کرام تبلیغِ دین بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن درس و تدریس کی مشغولی کی وجہ سے تبلیغی احباب کے ساتھ وقت نہیں دے پاتے۔ لہٰذا آپ نے یہاں بھی سخت غلطی کی ہے، اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ گمان یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ نے تبلیغی احباب کو بھی علماء کرام سے بدگمان کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، اور آپ کو تبلیغی احباب سے کیونکر ہمدردی ہونے لگی؟ جبکہ آپ حضرات کے عقیدے کے مطابق تو ہم مقلدین گمراہ ہیں، تو پھر ہمارا ایک طبقہ آپ کے نزدیک لائق ستائش کیوں ہوا؟ معلوم ہوا کہ آپ کے یہ جملے بھی کسی سازش کا پتہ دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ نے علماء کرام کو کرنے کئی کام بتا دیئے اب آپ سے بھی سوال ہے کہ آپ نے اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ دین کی کتنی خدمت کی ہے؟ کیا امامت، اذان اور تعلیمِ قرآن کو بلا اجرت انجام دینے کی ذمہ داری صرف فارغینِ مدارس کی ہے؟ آپ جیسے حضرات کی کیا ذمہ داری ہے؟ آپ ذرا بتائیں کہ آپ نے کتنے لوگوں کو دین کی بنیادی تعلیم دی؟ کتنے افراد کو ناظرہ قرآن بالتجويد ختم کروایا؟ کتنے لوگوں کو حافظِ قرآن بنایا؟ کتنے لوگوں کو درسِ حدیث و درسِ قرآن دیا؟ اور مسجد میں کتنی مرتبہ جماعت کی امامت فرمائی ہے؟ اگر آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے تو آپ کس منہ علماء کرام کو مشورہ دے رہے ہیں؟ کیونکہ انصاف کی بات تو یہی تھی کہ آپ پہلے دواخانے کی مصروفیات کے ساتھ مذکورہ دینی خدمات انجام دے کر بتاتے اس کے بعد علماء کرام کو مشورہ دیتے، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا ہے تو آپ بنی اسرائیل کی اس برائی کے مرتکب ہوئے ہیں جسے قرآن میں بیان کیا گیا ہے اتأمرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔
محترم یہ آپ کا ظرف تھا کہ آپ نے اپنے مضمون میں علماء کرام کی شان میں گستاخی کی، جبکہ ہمارا ظرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے جواب میں حتی الامکان اس بات کی کوشش کی ہے کہ کوئی سخت الفاظ آپ کے لیے استعمال نہ ہو، لہٰذا اس پر بھی توجہ فرمائیں۔
اخیر میں آپ سے ایک حدیث شریف بطور خیر خواہی بیان کی جاتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔ (شعب الإيمان للبیھقی، 1709)
حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے، لہٰذا آپ سے مخلصانہ درخواست ہے کہ اگر خدانخواستہ آپ کے دل میں علماء کرام سے متعلق برائی موجود ہوتو اسے مکمل طور پر ختم کردیں، توبہ و استغفار کریں، بے شک اللہ غفور رحيم ہے۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو علماء کرام سے محبت کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین
زمین میں مغبوضہ یا غیر موجودہ پر بنائی گئی مسجد یا حرام مال سے بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے دلیل حوالے کے ساتھ
جواب دیںحذف کریں