پیر، 8 جولائی، 2019

مالِ مرہون پر زکوٰۃ کا حکم

*مالِ مرہون پر زکوٰۃ کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب!
زید نے سات لاکھ روپے قرض لیا، اس صورت میں کہ ہر ماہ پچیس ہزار روپے قسط وار قرض کی ادائیگی کرے گا۔
تقریباً پچاس ہزار مالیت کا سونا بطور گروی رکھوایا گیا ہے۔ تو زید پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یا نہیں؟ (اب تک تین قسطیں قرض کی ادائیگی میں 25، 25 ہزار کی رقم دی جا چکی ہے۔)
شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔ عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ماسٹر کامران لقمان انصاری، نیاپورہ)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ مال مکمل ملکیت میں ہو اور اس پر قبضہ بھی ہو تب ہی زکوٰۃ واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔

مثلاً رہن میں رکھا ہوا مال کہ اس پر مال والے کی ملکیت تو ہوتی ہے، مگر قبضہ نہیں اور مرتہن (یعنی جس کے پاس مال رکھا گیا ہے) کا قبضہ ہوتا ہے مگر ملکیت نہیں ہوتی۔ اس لئے مالِ مرہون میں کسی پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں گروی رکھے ہوئے پچاس ہزار قیمت کے سونے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اس لئے کہ وہ زید کی ملکیت میں تو ہے لیکن اس پر قبضہ نہیں ہے۔

أن يكون مملوكا له رقبة و يدا (بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ، ٢/٩)

ولا اي لا يجب الزكاة في مرهون اي لا على المرتهن لعدم الملك ولا على الراهن لعدم اليد (الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الزكاة، ٣/١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی القعدہ 1440

1 تبصرہ:

  1. مفتی صاحب جب قبضہ شرط ہے تو قرض دی ہوئی رقم پر زکوٰۃ کیسے واجب ہے؟ اس میں تو قبضہ نہیں ہوتا۔

    جواب دیںحذف کریں