پیر، 1 جولائی، 2019

شادی بیاہ ودیگر تقریبات کے لیے راستہ بند کردینا

*شادی بیاہ ودیگر تقریبات کے لیے راستہ بند کردینا*

سوال :

مفتی صاحب! اکثر دیکھنے میں آ تا ہے کہ کسی کے گھر کوئی تقریب جیسے شادی عقیقہ یا حج بیت اللہ سے واپسی پر کھانا وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور مذکورہ مقصد کے لیے عام راستہ بند کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ منع کرنے پر بحث کرنے لگتے ہے۔کبھی کبھی تو معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ میت / جنازہ کو قبرستان لے جانے کے لئے بھی شرکاء جنازہ دائیں سے بائیں، پورے راستے کو گھیرے ہوئے چلتے ہیں، دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا کسی بھی قسم کی تقریب یا جنازوں کو آخری منزل تک پہنچانے کے لیے عام راستہ بند کرنا جائز ہے؟ کیا شریعتِ اسلامیہ میں ایسا کرنے کی کسی درجے میں اجازت ہے؟
برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
(المستفتی : حافظ توصیف اشتیاق، مسجد بھاؤ میاں، فتح میدان)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مذہبِ اسلام آفاقی مذہب ہے۔ جس کی روشنی انسانیت کے ہر شعبہ میں یکساں طور پر اثر انداز ہے، جہاں عبادات کے سلسلے میں مکمل رہنمائی ملتی ہے تو وہیں معاملات و معاشرت کا بھی کوئی گوشہ اسلامی تعلیمات سے خالی نہیں ہے۔ اسلامی معاشرت کا یہ تقاضہ ہے کہ مسلمان آپس میں اخوت، محبت، ہمدردی، غمخواری اور حسنِ سلوک کے ساتھ رہیں۔ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان، حتی کہ غیرمسلم کو بھی کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہنچے۔ بلکہ احادیث مبارکہ میں تو یہاں تک تعلیم دی گئی ہے کہ راستے میں اگر کوئی تکلیف دِہ چیز پڑی ہو تو اس کو ہٹا دیا جائے، اور اس عمل پر بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اور آخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستہ سے ہٹا دیا، اس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (بخاری ومسلم)

ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان منقول ہے کہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔ (مسلم)

ایک روایت میں ملتا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی، یا درخت پر تو اس عمل پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔(ابوداؤد)

ذکر کردہ احادیث سے معلوم ہوا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹادینا کوئی عام نیکی نہیں ہے، بلکہ یہ ایسا عظیم کارِ خیر ہے جو آدمی کی مغفرت کے لیے بھی کافی ہوسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ احادیث میں اس پر وعید بھی سنائی گئی ہے کہ کوئی مسلمان دوسروں کے لیے ایذا اور تکلیف کا سبب بنے۔ ذیل میں اس مضمون کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن سے ایذائے مسلم و ایذائے ناس جیسے گناہ کی سنگینی کا وضاحت کے ساتھ علم ہوجائے گا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنے جان و مال کا اطمینان رکھیں۔ (سنن نسائی)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! جو محض زبان سے ایمان لائے اور یہ ایمان دل تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو تکلیف مت دو ،جو اپنے بھائی کی عزت کے درپے ہوگا تو اللہ اس کے درپے ہوگا اور اسے ذلیل کردے گا، خواہ وہ محفوظ جگہ چھپاہواہو۔ (جامع المسانید والمراسیل، رقم: ۶۹۳۷۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کام کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔(مسلم)

حضرت سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد (قبول) نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

درج بالا تمہید، فضائل اور وعیدوں کے بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس مسئلے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور حتی الوسع اس بات کی کوشش کی جائے کہ ہماری ذات سے کسی کو بھی ایذا اور تکلیف نہ پہنچے۔

اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف۔ سوال نامہ میں جنازہ  کا ذکر کیا گیا ہے، بندے کے غالب گمان کے مطابق اس میں کوئی خاص اصلاح کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ مشاہدہ کی بات یہ ہے کہ کشادہ سڑکوں پر جنازہ لے جانے میں اس بات کا اہتمام ہوتا ہے کہ ایک طرف راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں راستہ کشادہ نہ ہو، وہاں مجبوری ہے، اور عوام بھی جنازے کے احترام میں تکلیف کا احساس نہیں کرتے۔ تاہم اصولی بات یہی ہے کہ جہاں راستہ کشادہ ہو وہاں جنازہ لے جانے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ راہگیروں کے لیے راستہ بند نہ ہوجائے۔

شادی بیاہ و دیگر تقریبات کے مواقع پر گلی یا سڑکوں کو بند کردینا جس سے لوگوں کو تکلیف ہو جائز نہیں ہے۔ تاہم اس میں بھی مطلقاً حکم لگادینا درست نہیں۔ اس لئے کہ اس میں ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جو راستہ بند کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اس کی وجہ غربت یعنی چھوٹے مکانات، گلیوں کا کشادہ نہ ہونا، یا پھر بعض مواقع پر کسی ہال وغیرہ کا دستیاب نہ ہونا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے حق میں یہ عمل ناجائز نہیں کہلائے گا، بشرطیکہ حتی الامکان اس کی کوشش کی جائے کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔

دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جو ہال وغیرہ کرایہ پر لینے کی استطاعت کے باوجود گلیوں اور سڑکوں کو بند کرکے دعوتِ طعام وغیرہ کا نظم کرتا ہے یا پھر ضرورت سے زیادہ راستہ روک دیتا ہے، مثلاً طعام کے اوقات کے علاوہ بھی دن دن بھر راستہ بند کردیا جاتا ہے، ایسے لوگ بلاشبہ ایذائے مسلم و ایذائے ناس کے مرتکب ہوکر سخت گناہ گار ہورہے ہیں، پھر اس میں بھی لوگوں کو جسقدر زیادہ تکلیف ہوگی اسی قدر گناہ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اسی طرح منع کرنے والوں سے لڑائی جھگڑا کرلینا ان کے گناہ کو قباحت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرنا چاہیے اور توبہ و استغفار کرکے آئندہ ایسے قبیح فعل سے باز رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ عمل حقوق العباد کی قبیل سے ہے جس کا مؤاخذہ بروزِ حشر بڑا سخت ہونے والا ہے۔

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال : المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵، کتاب الإیمان و شرائعہ،باب صفۃ المؤمن)

اخرج الیٰ طریق العامۃ کنیفاً او میزاباً الیٰ قولہ … لودکانا جاز احداثہ ان لم یضر بالعامۃ فان ضرلم یحل۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الجنایات، ۶/۵۹۲)

الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر ص۱۴۰؍ الفن الاول)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 شوال المکرم 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں