ہفتہ، 22 جون، 2019

عام مسلمان میت کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا

*عام مسلمان میت کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا*

سوال :

مفتی صاحب سوشل میڈیا پر ایک صاحب کی صحت یابی کے تعلق سے ایک میسج چل رہا ہے جس کے اندر ان کے مرحوم والد جو کہ بڑے سیاسی لیڈر تھے ان کے نام کے آگے رحمۃ اللہ علیہ لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ اعتراض کر رہے ہیں۔ ان کا اعتراض درست ہے یا نہیں؟ کیا ہم کسی کے بھی نام کے آگے رحمۃ اللہ علیہ لگا سکتے ہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عارف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ترحُّم یعنی رحمۃ اللہ علیہ یا رَحِمَہُ اللہ کے معنی ہوتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، لہٰذا معنی کے اعتبار سے کسی بھی مسلمان کے لیے ترحم  کا استعمال شرعاً ناجائز نہیں ہے۔

البتہ ترحُّم عام طور پر علماء وصلحاء کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ غیر علماء، دانشور، اور سیاست داں حضرات کے لئے "مرحوم" کا لفظ مستعمل ہے، علماء کرام کی تحریروں اور تقریروں میں بھی یہ فرق دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ غیرعلماء و صلحاء کے لیے مرحوم اور غَفَرَاللہُ لَہٗ (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) کے الفاظ پر اکتفا کیا جائے اور اختلاف و بحث کا موضوع بننے سے محفوظ رہا جائے۔

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات میں آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔

(والتَّرَحُّمُ لِلتّابِعِينَ ومَن بَعْدَهُمْ مِن العُلَماءِ والعُبّادِ وسائِرِ الأخْيارِ وكَذا يَجُوزُ عَكْسُهُ) التَّرَحُّمُ ولِلصَّحابَةِ والتَّرَضِّي لِلتّابِعِينَ ومَن بَعْدَهُمْ (عَلى الرّاجِحِ) ذَكَرَهُ القَرْمانِيُّ وقالَ الزَّيْلَعِيُّ الأوْلى أنْ يَدْعُوَ لِلصَّحابَةِ بِالتَّرَضِّي ولِلتّابِعِينَ بِالرَّحْمَةِ ولِمَن بَعْدَهُمْ بِالمَغْفِرَةِ والتَّجاوُزِ۔ (شامی : ٦/٧٥٤)

ثُمَّ الْأَوْلَى أَنْ يَدْعُوَ لِلصَّحَابَةِ بِالرِّضَا فَيَقُولَ رَضِيَ اللَّه تَعَالَى عَنْهُمْ، وَلِلتَّابِعَيْنِ بِالرَّحْمَةِ فَيَقُولَ: رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى، وَلِمَنْ بَعْدَهُمْ بِالْمَغْفِرَةِ وَالتَّجَاوُزِ فَيَقُولَ: غَفَرَ اللَّهُ لَهُمْ وَتَجَاوَزَ عَنْهُمْ۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ٦/٤٤٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شوال المکرم 1440

1 تبصرہ: