*بیوہ عورت کا نکاح نہ کرنا کب افضل ہے؟*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بیوہ عورت کا نکاح ثانی کرنا افضل ہے یا بچوں کی پرورش؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : مومن مجیب، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عام حالات میں جبکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہوتو بیوہ یا مطلقہ عورت کا بچوں کی پرورش کی وجہ سے نکاح نہ کرنا افضل ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ عورت کہ جس کے رخسار اپنی اولاد کی پرورش و دیکھ بھال کی محنت اور مشقت اور ترک زینت و آرائش کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے ہیں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے اس حدیث کے روای یزید بن ذریع نے یہ الفاظ بیان کرنے کے بعد انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں اسی طرح قیامت کے دن آپ اور وہ بیوہ عورت قریب قریب ہوں گے اور سیاہ رخساروں والی عورت کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کے مر جانے یا اس کے طلاق دیدینے کی وجہ سے بیوہ ہو گئی ہو اور وہ حسین و جمیل اور صاحب و جاہ عزت ہونے کی باوجود محض اپنے یتیم بچوں کی پرورش اور ان کی بھلائی کی خاطر دوسرا نکاح کرنے سے باز رہے یہاں تک کہ وہ بچے جدا ہو جائیں یعنی بڑے اور بالغ ہو جانے کی وجہ سے اپنی ماں کے محتاج نہ رہیں یا موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے۔
مطلب یہ ہے کہ جس عورت کا خاوند چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر مر گیا ہو یا جس عورت کو طلاق اس کے خاوند نے دی ہو اور اس عورت نے محض اپنے یتیم بچوں کی خاطر دوسرے شخص سے نکاح نہ کیا ہو بلکہ اپنے حسن و جمال اور جاہ عزت کے باوجود اپنے جذبات کو کچل کر ازواجی زندگی کی خوشیوں و مسرتوں سے دور رہی اور اپنے ان بچوں کی پرورش و دیکھ بھال میں اس وقت تک اپنی جان کھپاتی رہی جب تک کہ وہ اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس نے ان کی پرورش میں مشغول رہ کر اپنی زندگی کے جو ان ایام کو قربان کیا اور اپنے حسن و جمال کو برباد کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی حوصلہ مند عورت کے بارے میں فرمایا کہ وہ قیامت کے میرے اس قدر قریب ہوگی جس قدر یہ دونوں انگلیاں ہیں۔
درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ جو عورتیں اپنے خاوند کی وفات یا طلاق کی وجہ سے بیوہ ہو گئی ہوں تو ان کو صبر و استقامت عفت وپاکدامنی اور ترک زیب و زینت کو اختیار کرنا اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر دوسرا نکاح نہ کرنا اور ان بچوں کی صحیح تربیت میں مشغولیت رہنا بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ البتہ نکاح کرلینے میں بھی شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ ایسی جگہیں جہاں نکاحِ ثانی کو عیب سمجھا جاتا ہو وہاں نکاح کرلینا افضلیت رکھتا ہے۔ نیز فتنہ کا اندیشہ ہو تب بھی بیوہ یا مطلقہ کو نکاح کرلینا چاہیے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا النَّهَّاسُ بْنُ قَهْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَا وَامْرَأَةٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ كَهَاتَيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وَأَوْمَأَ يَزِيدُ بِالْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ - امْرَأَةٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِهَا ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، حَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلَى يَتَامَاهَا حَتَّى بَانُوا أَوْ مَاتُوا۔(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5149)
مستفاد : مشکوۃ مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 شوال المکرم 1440
ابوداؤد حدیث نمبر 5149 جو مشکات میں بھی ھے ۔اس میں راوی نہاس ضعیف ھے ۔کیا ضعیف حدیث حجت ھے؟؟؟
جواب دیںحذف کریںابن حجر اور شعیب ارناؤط نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
حذف کریں