پیر، 10 جون، 2019

چرم قربانی کے مصارف کیا ہیں؟

*چرم قربانی کے مصارف کیا ہیں؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ چرم قربانی کے پیسہ کا مصرف کیا ہے؟ نیز اگر کسی نے اپنے دادا کو چمڑے کا پیسہ لاعلمی میں اپنے سگے دادا کو دے دیا تو کیا کرنا پڑے گا؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کے جانور کی کھال بذاتِ خود استعمال کرسکتے ہیں یا کسی دوسرے کو ہدیہ کرسکتے ہیں، اور صدقہ بھی کی جاسکتی ہے، لیکن جب اُسے فروخت کردیا جائے تو اُس کی قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے، اور اس رقم  کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے۔ لہٰذا اصول (ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی) فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، ناتی، نواسی) کو صدقہ واجبہ یعنی زکوٰۃ، اور چرم قربانی کی رقم نہیں دی جائے گی، ان کی مدد عطیہ سے کی جائے گی، ان کے علاوہ دیگر رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، ساس، سسر، وغیرہ اگر مستحق ہوں تو انہیں چرم قربانی کی رقم دے سکتے ہیں، بلکہ انہیں دینا افضل ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی نے اپنے دادا کو چرم قربانی کی رقم دے دی، اگرچہ اسے مسئلہ کا علم نہ ہو تب بھی اس کے ذمہ یہ رقم واجب الادا ہوگی، اس لئے کہ یہ رقم اس کے مصرف میں خرچ نہیں ہوئی، لہٰذا دوبارہ یہ رقم کسی مستحقِ زکوٰۃ کو ادا کی جائے گی۔ اور دادا کو دی گئی رقم ہدیہ اور تبرع شمار کی جائے گی جس کے لیے وہ عنداللہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔

ولا بأس بأن یشتري بہ ما ینتفع بعینہ في البیت مع بقائہ استحبابًا۔ (فتح القدیر : ۸؍۴۳۶ کوئٹہ)

أخرج أحمد في مسندہ حدیثًا طویلاً طرفہ ہٰذا: ولا تبیعوا لحوم الہدي والأضاحي، فکلوا وتصدقوا واستمتعوا بجلودہا، ولا تبیعوہا، وإن أطعمتم من لحمہا فکلوا إن شئتم۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۴؍۱۵ رقم: ۱۶۳۱۲)

وَلا یدْفع إلى أصله وإن علا أو فَرعه وإن سفل أو زَوجته وكَذا لا تدفع إلى زَوجها خلافًا لَهما ولا إلى عَبده أو مكاتبه أو مدبره أو أم
ولا یدفع إلی أصلہ وإن علا، أو فروعہ وإن سفل۔ (ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، کتاب الزکاۃ / باب في بیان أحکام مصرف : ۱؍۳۳۱)

وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَدْفُوعَ إلَيْهِ لَوْ كَانَ جَالِسًا فِي صَفِّ الْفُقَرَاءِ يَصْنَعُ صُنْعَهُمْ أَوْ كَانَ عَلَيْهِ زِيُّهُمْ أَوْ سَأَلَهُ فَأَعْطَاهُ كَانَتْ هَذِهِ الْأَسْبَابُ بِمَنْزِلَةِ التَّحَرِّي كَذَا فِي الْمَبْسُوطِ حَتَّى لَوْ ظَهَرَ غِنَاهُ لَمْ يُعَدَّ۔ (شامی، کتاب الزکوۃ : ٣٠٢/٣)

دفع بتحر لمن يظنه مصرفا فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستامنا أعادها لما مر إن بان غناه أو كونه ذميا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا يعيد لأنه أتى بما في وسعه حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ۔ (شامی : ٣/٣٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شوال المکرم 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں