*رؤیتِ ہلال سے متعلق چند سوالات*
سوال :
1) چاند کی شہادت کن لوگوں کی قبول کی جا سکتی ہے؟
2) سعودی عرب میں چاند نظر آنے پر بھارت والے ان کی شہادت کیوں نہیں قبول کرتے؟
3) چاند کی شہادت کتنی مسافت کی قبول کی جا سکتی ہے؟
قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں، نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر مطلع ابرآلود ہو اور اس وجہ سے رؤیتِ عامہ نہ ہوسکے تو ثبوت رمضان کا فیصلہ ایک دیندار پابند شریعت مسلمان مرد یا عورت کے بیان پر کیا جاسکتا ہے۔
البتہ ہلالِ عید کے لئے باقاعدہ شہادت کی ضرورت ہے یعنی دو مرد یا ایک مرد، دو عورتیں (جو مسلمان اور بظاہر پابند شریعت ہوں) اور قاضیٔ شرعی یا مفتی کے سامنے چاند دیکھنے کی شہادت دیں اور قاضی و مفتی اس کی شہادت قبول کرلیں تو اس سے بھی چاند ثابت ہوجاتا ہے۔ (١)
2) معلوم ہونا چاہیے کہ چاند کا ایک قدرتی نظام ہے، اور مہینہ کے ہر دن کے لئے اس کی منزلیں متعین ہیں، اور بلا شبہ طول البلد اور عرض البلد کے اعتبار سے ہر علاقہ میں چاند کا مطلع بھی الگ الگ ہے، اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مطالع کا یہ اختلاف شریعت کی نظر میں معتبر ہے یانہیں؟ تو اس سلسلہ میں تمام فقہی جزئیات کو سامنے رکھ کر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ:
الف :- بلادِ قریبہ میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں ہے، اور قریب کی حد یہ ہے کہ اس جگہ کی معتبر خبر کو مان لینے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍دن سے کم یا ۳۰؍ دن سے زیادہ لازم نہ آتا ہو۔
ب :- بلادِ بعیدہ میں شرعاً اختلافِ مطالع کا اعتبار ہے اور بعیدہ کی حد یہ ہے کہ وہاں کی رؤیت تسلیم کرنے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍ دن سے کم یا ۳۰؍ دن سے زیادہ کا لازم آتا ہو، ایسی جگہوں کی خبریں تسلیم نہیں کی جائیں گی، اگرچہ کتنے ہی وثوق کے ساتھ کیوں نہ آئیں، چونکہ شریعت کی نظر میں کوئی مہینہ نہ تو ۲۹؍ دن سے کم ہوسکتا ہے اور نہ ۳۰؍ دن سے زیادہ ہوسکتا ہے۔
درج بالا دونوں اصولوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ ہندوستان کے طول وعرض میں سے کسی بھی جگہ سے آمدہ خبر جب کہ طریق موجب یا استفاضہ کے طور پر آئے اسے مانا جاسکتا ہے، لیکن اگر سعودی عرب سے کوئی خبر آئے گی، تو یقینی خبر کے باوجود اس خبر پر ہندوستان میں چاند کے ثبوت کا مدار نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ وہاں کا مطلع یہاں سے الگ ہے، اور وہاں کی خبر کو مان لینے سے اپنے یہاں کا مہینہ کم یا زیادہ ہونا لازم آتا ہے۔
چاند کے متعلق ایک اہم بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ چاند کے فیصلہ کا اختیار ہر کس وناکس کو نہیں ہوتا، بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو ہی چاند کے اعلان کا حق حاصل ہے۔ اور جہاں اسلامی نظام حکومت قائم نہ ہو، وہاں معتبر رؤیتِ ہلال کمیٹیاں حاکم شرعی کے قائم مقام ہوتی ہیں، لہٰذا قریبی علاقہ سے آمدہ خبروں پر شرح صدر ہونے پر رؤیتِ ہلال کمیٹیاں چاند کا اعلان کرسکتی ہیں، لیکن جب تک کمیٹیاں اعلان نہ کریں کسی فرد کو اپنے طور پر چاند کے ثبوت پر عمل کرنا درست نہ ہوگا۔ (مستفاد فتاوی رشیدیہ ۴۵۱، امداد الفتاوی ۲؍۱۰۸، معارف مدینہ ۱۰؍۱۷، انوار رحمت ۵۵۱، احسن الفتاوی ۴؍۴۷۴، جدید فقہی مسائل ۲؍۳۳/بحوالہ کتاب النوازل)
3) جواب نمبر دو کا بغور مطالعہ کرلیا جائے اسی میں اس سوال کا جواب بھی موجود ہے۔
١) (للصوم مع علۃ کغیم) وغبار (خبر عدل) ولو کان العدل قناً اوانثیٰ او محدوداً فی قذف تاب (درمختار ج۲ ص ۱۲۳۔۱۲۴ ایضاً) وبرائے شہادت ماہ رمضان اگر آسمان ابر یا مانند آں داردیک مردیازن عادلی کا فی است حربا شدیا رقیق (مالا بدمنہ ص ۹۳/نور الایضاح ص۱۴۹)
(وشرط للفطر ) مع العلۃ والعدالہ (نصاب الشھادۃ ولفظ اشھد) (درمختار ج۲ ص ۱۲۴ ایضاً) وبرائے شہادت شوال دریں چنیں حال دو مر وحر عادل یا یک مرد و دوزن احرار عدول بالفظ شہادت شرط است (مالا بد منہ ص ۹۳/نور الایضاح ص ۱۴۹/بحوالہ فتاوی رحیمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شوال المکرم 1440
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں