*کھانے سے پہلے یا بعد میں میٹھا یا نمکین کھانے کا حکم*
سوال :
کھانا کھانے کی سنت میں شروعات میں میٹھا ہے یا نمکین؟ سب لوگ الگ الگ باتیں کہتے ہیں۔آپ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد معاذ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا پسند تھا، اور میٹھے میں عربوں کے یہاں اُس وقت عموماً کھجور ہی دستیاب ہوتی تھی۔ بلکہ غرباء کا کھانا عام طور پر یہی کھجور اور پانی ہوتا تھا، انواع و اقسام کے کھانے پھر اُس میں بھی میٹھے کا اہتمام بالکل نہ کے برابر ہوا کرتا تھا، اور یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہی نہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تین تین چاند ہوتے تھے، گھر میں چولہا بھی جلایا نہیں جاتا تھا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیٹ پر پتھر باندھنا بھی ثابت ہے۔ اور کھانے میں جو میسر ہوتا آپ بلاتکلف تناول فرمالیا کرتے تھے، ملحوظ رہے کہ آپ کا یہ سب فقرو فاقہ اختیاری تھا ورنہ اللہ تعالٰی کا یہ فرمان تھا کہ اگر آپ چاہیں، تو پہاڑوں کو سونا بنا دیا جائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواباً فرمایا کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک روز کھانا ملے تاکہ شکر ادا کروں، ایک روز بھوکا رہوں تاکہ صبر کرسکوں۔
درج بالا تمہید سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بہت زیادہ تکلف اور کھانے میں اہتمام نہیں فرماتے تھے، جس کی وجہ سے کھانے سے پہلے یا بعد میں میٹھا یا نمکین کھانے کا خصوصی طور پر اہتمام ثابت نہیں ہے۔
کھانے میں نمکین سے ابتدا و اختتام سے متعلق چند روایات ملتی ہیں، جس کی وجہ سے بعض کُتب فقہ مثلاً شامی، عالمگیری وغیرہ میں اسے مسنون لکھ دیا گیا ہے، لیکن یہ تمام روایات سخت ضعیف بلکہ موضوع ہیں، لہٰذا کھانے سے پہلے یا بعد میں نمکین کھانے کو سنت نہیں کہا جائے گا۔
البتہ ایک موقع پر کھانے کے بعد کھجور نوش فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کے آخر میں کھجور تناول فرمائی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میٹھی چیز کھائی ہے۔ لیکن اس ایک مرتبہ کھانے کے بعد میٹھی چیز تناول فرمانے کی بنا پر کھانے کے بعد میٹھا استعمال کرنے کو سنت نہیں کہا جا سکتا۔
خلاصہ یہ کہ کھانے سے پہلے یا بعد میں میٹھے یا نمکین کے استعمال کو سنت سمجھنا درست نہیں ہے، اِس لئے کہ روایات مختلف اور آپ علیہ السلام کا خاص اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے کسی ایک پہلو کو سنت اور دوسرے کو خلافِ سنت کہنا مشکل ہے۔ لہٰذا جب جیسا موقع ہو، اور طبیعت اور طبی لحاظ سے جو مرغوب و مفید ہو اس پر عمل کر سکتے ہیں، اِس بارے میں شرعاً کوئی پابندی نہیں ہے۔
کان رسول اللہ ﷺ یحب الحلوٰی والعسل۔ (صحیح البخاری : ۲/۸۱۷ ، کتاب الأطعمۃ ، باب الحلوٰی والعسل)
عن عائشة قالت : کان یأتي علینا الشہر ما نوقد فیہ نارًا، إنما ھو التمر والماء ۔(مشکوة ۳۶۵)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: عرض علي ربي لیجعل لي بطحاء مکة ذہباً، فقلت: لا یارب، ولکن أشبع یوماً وأجوع یوماً، فإذا جعت یوماً، تضرعت إلیک وذکر تک، وإذا شبعت، حمدتک وشکرتك۔(مشکوة ۴۲۲)
عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: من ابتدأ غداء ہ بالملح أذہب عنہ سبعین نوعًا من البلاء۔ (شعب الإیمان للبیہقي ۵؍۱۰۳ رقم: ۵۹۵۲ دار الکتب بیروت)
عن علقمۃ بن سعد بن معاذ حدثني أبي عن أبیہ عن جدہ مرفوعًا استعینوا طعامکم بالملح فوالذي نفسي بیدہ أنہ لیرد ثلاثًا وسبعین نوعًا من البلاء۔
وفي روایۃ: عن علي بن أبي طالب مرفوعًا یا علي! علیک بالملح، فإنہ شفاء من سبعین داء، الجذام والبرص والجنون۔
قال السیوطي بعد نقل ہٰذہ الآثار: لا یصح والمتہم بہ أحمد بن عبد اللّٰہ بن عامر و أبوہ، فإنہما یرویان نسخۃً عن أہل البت، کلہا باطلۃ۔ (اللآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي / کتاب الأطعمۃ ۲؍۱۷۹)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي السَّوِيَّةِ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِكْرَاشٍ عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَفْنَةٍ كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَدَكِ فَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا فَخَبَطْتُ يَدِي فِي نَوَاحِيهَا فَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانٌ مِنْ الرُّطَبِ فَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3274)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شوال المکرم 1440
ماشااللہ اب حنفی مفتیان کرام بھی احادیث کی صحت پر گفتگو کر رہے ہیں
جواب دیںحذف کریںاللہ مفتی موصوف کو جزاے خیر عطاء فرمائے
الحمدللہ اب سے نہیں ابتداء سے ہی صحت کی تحقیق کرکے مسئلہ بتاتے تھے، اور بتاتے رہیں گے۔ ان شاءاللہ
حذف کریںMashaallha
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بھت اچھا جواب
جواب دیںحذف کریں