*شوال میں مستعفی ہونے والے اساتذہ کا تعطیل کی تنخواہ لینا*
سوال :
مدارس و مکاتب میں اساتذہ کو جو تنخواہ دی جاتی ہے اس میں پڑھائی کے دس مہینوں کے علاوہ چھٹیوں کے اوقات کی تنخواہ بھی ہوتی ہے، ان چھٹیوں کے اوقات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بعض اساتذہ چھٹیوں کی تنخواہ وصول کرلیتے ہیں اس کے بعد باضابطہ مستعفی ہوجاتے ہیں یا حیلے بہانوں سے اس مدرسے سے تدریسی تعلق منقطع کرلیتے ہیں، اساتذہ کی اس طرح حرکتوں سے ذمہ داران مدارس و مکاتب پریشان ہیں کہ وہ چھٹیوں کی تنخواہ وصول کرلیتے ہیں اور عین وقت پر مدرسہ چھوڑ دیتے ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ چھٹیوں کی تنخواہ کے حقدار کونسے اساتذہ ہیں؟ حالانکہ اداروں میں یہ عام ہے کہ ادارہ سے معطل ہونے والے یا کیے جانے والے اساتذہ سال آخر میں ہی ہوجاتے ہیں۔ بینوا و توجروا
(المستفتی : امتیاز احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر مدارس و مکاتب میں تعطیلات کی تنخواہ دینے کا ضابطہ ہوتو اساتذہ کو تنخواہ لینے کا شرعاً حق ہے۔ یہ ادارہ اور اساتذہ کے درمیان معاہدہ کی شرائط کا درجہ رکھتا ہے، اور تعطیل کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ ملازم کو آرام اور اپنی دوسری ضروریات کو پورا کرنے کا موقع بہم پہنچے، تاکہ اگلے دنوں تازہ دم ہوکر اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ ادارہ کا کام کرسکے، پس تعطیل میں جیسے ملازم کا فائدہ ہے، ایسے ہی ادارہ کا بھی مفاد ہے، لہٰذا اساتذہ کا ادارہ کی مقرر کردہ تعطیلات سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، اور ان ایام کی تنخواہ حلال ہے، خلاصہ یہ کہ عرف میں جتنے ایام تعطیل کے ہوتے ہیں ان ایام کی تنخواہیں دینا اور لینا دونوں ہی جائز ہے۔ (مستفاد : کتاب الفتاویٰ)
صورتِ مسئولہ میں مدرسہ کے مقرر کردہ ضابطہ کے مطابق عمل کیا جائے گا، اگر شوال میں استعفیٰ دینے کے باوجود تنخواہ کے استحقاق کا ضابطہ ہو تو ایسے مدرسین تنخواہ کے مستحق ہوں گے ورنہ نہیں، اور اگر مدرسہ میں کوئی ضابطہ نہیں ہے تو دیگر مدارس کے تعامل کے مطابق استحقاق تنخواہ اسی وقت ہوگا جب کہ مدرسین تعطیل کلاں کے بعد مدرسہ میں حاضر بھی ہوں، تعطیل کے درمیان استعفیٰ کی صورت میں استحقاق نہ ہوگا۔ الغرض مسئلہ کا مدار عرف وتعامل پر ہے، جیسا عرف ہو ویسے عمل کرلیا جائے۔ (مستفاد: امداد الفتاویٰ ۳؍۳۴۸، فتاویٰ محمودیہ ۱۲؍۲۲۶ قدیم زکریا دیوبند/بحوالہ کتاب النوازل)
نیز اساتذہ کا تعطیلات کی تنخواہ لے کر سال کی ابتداء میں ہی مدرسہ میں حاضری دینے کے بعد استعفی دے دینا اگرچہ ناجائز نہیں ہے، لیکن خلافِ مروت ضرور ہے۔ لہٰذا مدارس و مکاتب کے ذمہ داران اگر یہ ضابطہ بنالیں کہ آئندہ سال کم از کم آپ کو ایک یا دو مہینہ مدرسہ میں اپنی خدمات انجام دینا ہوگی تب آپ کو تعطیلات تنخواہ دی جائے گی، ورنہ نہیں، تو ایسا کرنا جائز ہے۔ اس سے مسئلہ مذکورہ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
عن عبداﷲ بن عمرو بن عوف المزني، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: الصلح جائز بین المسلمین ، إلا صلحا حرم حلالا، أو أحل حراما، والمسلمون علی شروطہم، إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما۔ (سنن الترمذي، أبواب الأحکام، باب ما ذکر عن رسول اﷲ ﷺ في الصلح بین الناس، رقم: ۱۳۵۲)
إنما تعتبر العادۃ إذا أطردت أو غلبت - المعروف عرفًا کالمشروط شرطًا۔ (الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الخامسۃ في الفن الأول، ۲۷۱-۲۷۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں