جمعرات، 27 جون، 2019

نفاق کی قسمیں اور ان کے احکام

*نفاق کی قسمیں اور ان کے احکام*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلمائے دین متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل معاشرے میں ایک وبا عام ہوچکی ہے وہ یہ کہ لوگوں کے آپسی تعلقات میں دورخاپن اور دوغلہ پن عام ہوتا جارہا ہے مثلاً چند ساتھی بیٹھے ہوئے ہیں ان ہی کا ایک ساتھی بواسطہ فون ان سے ان کا محل وقوع دریافت کرکے انکے پاس آنے کی اطلاع دیتا ہے اب جب تک وہ آئے ان ساتھیوں کے درمیان اس آنے والے ساتھی کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہے کہ فلاں آرہا ہے وہ تو ایسا اور وہ تو ویسا اور خوب غیبتیں ہوتی ہیں اور جیسے ہی وہ مجلس میں آتا ہے سب اسکو عزت وتکریم کے کلمات سے مخاطب کرکے اس کی تعریفوں کے پل باندھنے لگتے ہیں اور جیسے ہی وہ رخصت ہوتا ہے یہ لوگ پھر اسی ڈگر پرآجاتے ہیں کہ اچھا ہوا گیا پتہ نہیں کہاں سے ٹپک پڑا تھا کباب میں ہڈی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔اب دریافت طلب بات یہ ہے کہ انکے اس عمل قبیح وشنیع کو دائرہ شریعت کی حدود میں کس نگاہ سے دیکھا جائے اور کس ترازو میں تولاجائے آیا اس کو منافقت کا نام دیا جائے یا کچھ؟ اور اگر منافقت کا ہی نام دیا جائے تو آیا یہ منافقت وہ منافقت ہے جس پر قران وحدیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں یا اسکے علاوہ ۔۔برائے مہربانی نصوص شرعیہ کی ضو وروشنی میں اطمینان بخش وبحوالہ تمام جواب مرحمت فرماکر ذرہ نوازی فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔ بینوا توجروا
(المستفتی : وقاص انجم انصاری، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : "منافق" نفق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی سرنگ کے ہوتے ہیں، اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے  کا نام قاصعاء ہے۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ اس کے بل کے ایک طرف کا نام نافقاء ہے، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک کفر، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراَ اپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں اس شخص کو منافق  کہا جاتا ہے جو ظاہری شکل وصورت میں مسلمان اور ارکانِ اسلام کا پابند ہو، لیکن در پردہ کفریہ عقائد پر قائم ہو یا اسلامی عقائد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو۔ (البحرالرائق، کتاب الجہاد، احکام المرتدین، 212/5، رشیدیہ)

منافقین کی دو قسمیں ہیں۔

۱) منافق اعتقادی : وہ ہے جو بظاہر مسلمان لیکن درپردہ کافر ہو ، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ قرآن کریم میں انہیں کے ناشائستہ اعمال وافعال کا تذکرہ ہے۔ نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے جو شخص نفاقِ اعتقادی رکھتا ہو اسے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۔ ترجمہ : یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے،‘‘ نفاق اعتقادی والے منافق ہی کے بارے میں ہے۔

۲) منافق عملی : اسے کہتے ہیں جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کی ظاہری صفات منافقین سے ملتی جلتی ہوں، مثلاً جھوٹ، وعدہ خلافی، اور خیانت جیسے برے افعال میں مبتلا رہتا ہو۔ ایسا شخص مسلمان تو ہے، لیکن سخت گناہ گار شمار ہوگا۔

نیز بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ "ہم حکمرانوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ اور بات (یعنی ان کی تعریف ہی)کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس بات کے خلاف بات کرتے ہیں " تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا ہم اُسے مُنافقت میں گنا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری /کتاب الاحکام/باب 27)

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور افراد جو دو رُخی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، منہ پر الگ اور پیٹھ پیچھے الگ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، یہ سب نفاقِ عملی کے حامل ہیں، اور نفاقِ عملی کا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو توبہ کرنے سے معاف کردیں گے، لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کے مرجائے، تو نفاقِ عملی کی سزا کے لیے دوزخ میں جائے گا، پھر اس کی سزا پوری ہو کر اس کو جنت میں داخل کیاجائے گا، نفاقِ عملی گناہِ کبیرہ کے مثل ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مسلمان دانستہ یا نا دانستہ طور پر ان میں سے کسی بری عادت کا شکار ہے تو اس کو فوراً اپنا احتساب کرنا چاہیے اور اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ورنہ آخرت میں سخت عذاب بھگتنا ہوگا۔

(النفاق الاعتقادی) الذی ہو ابطان الکفر واظہار الاسلام (مرقاۃ، ۱/۱۲۷، باب الکبائر وعلامات النفاق، مطبوعہ نوریہ دیوبند)

عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أربع من کن فیہ کان منافقاً، ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا، إذا حدّث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا خاصم فجر، وإذا عاہد غدر۔ (صحیح البخاري رقم : ۳۴)

أو المراد بالنفاق النفاق العملي لا الإیماني۔ (حاشیہ صحیح البخاری ۱؍۱۰، فتح الباري بیروت ۱؍۹۰)

قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ۔ (سورۃ النساء، آیت : ۱۱۶)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان کذا في مشکاة المصابیح (کتاب الدعوات باب الاستغفار والتوبة الفصل الثالث)
مستفاد : مضمون منافقین کا بیان، منافق کسے کہتے ہیں؟ اور منافقت کی علامت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں