*حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح؟*
سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے زلیخا کو جوان کیا گیا تھا پھر اس کے بعد ان کا نکاح ہوا تھا کیا یہ بات درست ہے؟ کیا نکاح ہونے والی بات بھی معتبر ہے؟
(المستفتی : ظہیراحمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح زلیخا سے ہوا ہے، لیکن زلیخا کو جوان کیا گیا اس کے بعد نکاح ہوا یہ بات کسی معتبر تفسير میں نہیں ملتی۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر معارف القرآن میں ہے : بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی زمانہ میں زلیخا کے شوہر قطفیر کا انتقال ہوگیا تو شاہِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی شادی کردی۔ (معارف القرآن، ۵/۷۷)
شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ اپنی تفسیر معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ عزیز مصر کے انتقال کے بعد بادشاہ نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ عزیز مصر کی بیوی زلیخا سے نکاح کردیا جس سے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک افرائیم دوسرے میشا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں۔ تفسیر قرطبی ج ۹ص۲۱۳۔ وزاد المسیر ج ۴ ص ۲۳۴، وتفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۴۸۲ (معارف القرآن، ۵/۲۴۲، سورۂ یوسف، لاہور)
دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں : یوسف علیہ السلام نے ایک سو دس سال یا ایک سوسات سال کی عمر میں وفات پائی، اور عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کے بطن سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے اور ایک لڑکی، لڑکوں کا نام افرائیم اور میشا تھے اور لڑکی کا نام رحمت تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام کے عقد میں آئیں۔ (معارف القرآن، ۶/۲۷۲)
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں : بعض تاریخی روایات میں ایسا آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح زلیخا سے ہوگیا تھا لیکن قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
مفتی سلمان صاحب منصورپوری رقم طراز ہیں : تفسیر کی بعض روایات سے (جن میں صدق وکذب دونوں کا احتمال ہے) یہ معلوم ہوتا ہے کہ عزیزِ مصر کے انتقال کے بعد اس کی بیوی کا نکاح بعد میں حضرت یوسف علیہ السلام سے کردیا گیا تھا۔
آخر کے دونوں قول زیادہ صحیح ہیں کہ حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
مستفاد : فتاوی محمودیہ، فتاوی رحیمیہ، فتاوی عثمانی، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 شوال المکرم 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں