*لے پالک کا اپنی پرورش کرنے والے کی میراث میں حصہ؟*
سوال :
زید نے اپنی سالی کا لڑکا گود لیا ہے، زید کے انتقال کے بعد گود لئے ہوئے بیٹے کو زید کی ملکیت سے کتنا حصہ ملے گا؟ اگر میت نے وصیت کی ہو تب کیا حکم ہوگا؟ مکمل مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ نے کسی دوسرے کے بچے کو بوقت ضرورت گود لینے کی اگرچہ اجازت دی ہے، لیکن ایسے بچے پر حقیقی اولاد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، یہ بچہ اپنے اصل والد کے نام سے پکارا جائے گا، سرکاری دستاویزات اور دیگر جگہوں پر بھی بچے کے اصل والد کا نام لکھا جائے گا۔ نیز بلوغت کے بعد پرورش کرنے والے کی بیوی (اگر محرمیت اور رضاعت کا رشتہ نہ ہوتو) سے اور اس کی بیٹیوں سے پردہ کرنا ضروری ہوگا۔ اگر یہ بچہ گود لینے والی کے لیے نامحرم ہوتو اسے چاہیے کہ رضاعت کی مدت یعنی ڈھائی سال کی عمر سے پہلے پہلے بچے کو اپنا دودھ پلادے تاکہ وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے اور بچی ہوتو اس کا شوہر اس کا رضاعی باپ بن کر اس کا محرم ہوجائے گا۔ اور اگر اس عورت کو دودھ نہ آرہا ہوتو کوئی دوا یا انجکشن کے ذریعے اگر دودھ اتر جائے اور یہ عورت اسے اپنا دودھ پلادے تو رضاعت ثابت ہوجائے گی۔ البتہ رضاعت کا رشتہ ہو یا نہ ہو تب بھی اس بچے کا پرورش کرنے والی کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کے متبنی کا زید کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے۔البتہ اگر زید نے اپنی زندگی میں اس کے حق میں وصیت کردی ہے تو زید کے کُل ترکہ کے تہائی یعنی تیسرے حصے میں اس کی وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد جو مال بچے گا وہ وارثین میں تقسیم ہوگا۔
قال اللہ تعالیٰ : اُدْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ۔ (سورہ احزاب، آیت : ۵)
وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم: من ادعی إلی غیر أبیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منہ صرف ولاعدل۔ (مشکوة شریف ص ۲۳۹، بحوالہ : صحیحین)
إن الدعي والمتبنی لایلحق في الأحکام بالابن، فلا یستحق المیراث، ولا یرث عنہ المدعي۔ (أحکام القرآن للتھانويؒ : ۵؍۱۸۳، کراچی)
قَلِيلُ الرَّضَاعِ وَكَثِيرُهُ إذَا حَصَلَ فِي مُدَّةِ الرَّضَاعِ تَعَلَّقَ بِهِ التَّحْرِيمُ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ .قَالَ فِي الْيَنَابِيعِ: وَالْقَلِيلُ مُفَسَّرٌ بِمَا يُعْلَمُ أَنَّهُ وَصَلَ إلَى الْجَوْفِ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٧/٤٨٥)
ثم تقضیٰ دیونہ من جمیع ما بقي من مالہ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین۔ (السراجي في المیراث / کتاب الفرائض ۳-۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 شوال المکرم 1440
اللہم زد وبارک یا اخی الکریم
جواب دیںحذف کریں