*تراویح میں ختمِ قرآن کے دن نمازِ وتر میں تاخیر کرنا*
سوال :
ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ چاہتا ہوں کہ ختم تراویح کے موقع پر عامۃ یہ طریقہ چل رہا ہے کہ بیس رکعت تراویح کے ختم پر اعلانات، تشکیل اور بیانات اور شیرینی تقسیم کی جاتی ہیں حفاظ قرآن مجید کو تحفہ دیا جاتا ہے، حالانکہ نماز وتر ابھی باقی رکھی جاتی ہے جو ایک واجب ہے اس میں کافی تاخیر کی جاتی ہے، لوگوں کو پکڑکر رکھا جاتا ہے کافی لوگ پریشان ہوتے ہیں تو کیا ہمارا یہ عمل درست اور صحیح ہے؟ حالانکہ وہ تمام کام وتر کے بعد بھی کرسکتے ہیں، ان تمام کام کے لئے واجب کو مؤخر کرنا صحیح ہے؟ مدلل جواب دیں۔
(المستفتی : محمد ایوب، مالدہ شیوار، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے۔ اور عام دنوں میں مستحب یہ ہے کہ جس شخص کو بیدار ہونے کا اعتماد ہو وہ آخر رات میں وتر ادا کرے، اور جس کو بیدار ہونے پر اعتماد نہ ہو اس کے لئے سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا مستحب ہے۔ البتہ حدیث شریف اور آثارِ صحابہ وتابعین سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں تراویح کے بعد باجماعت وتر ادا کرنا مسنون ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو تاخیر ہورہی ہے وہ نماز کے وقت میں تاخیر نہیں ہورہی ہے، بلکہ وتر وقت کے اندر ہی ادا ہورہی ہے، اس لئے کہ وتر کا وقت تو صبح صادق تک ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، تاہم یہ تاخیر اس وجہ سے مکروہ ہوگی کہ اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو پریشانی اور دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چنانچہ اس کی مامون و محفوظ صورت یہ ہے کہ بیان اگر مختصر کرنا ہو مثلاً دس پندرہ منٹ تو تراویح کے فوراً بعد دعا سے پہلے یا دعا کے بعد میں کرلیا جائے، اسی درمیان اطمینان و سکون سے شیرینی تقسیم کردی جائے، اس کے فوراً بعد وتر پڑھادی جائے، تاکہ جو لوگ جانا چاہیں وہ چلے جائیں، تحفے تحائف کا لین دین اور حفاظ کرام سے ملنا ملانا وِتر کے بعد رکھا جائے۔ اور اگر بیان طویل کرنا ہوتو اسے بھی وتر کے بعد ہی رکھا جائے بیان سنانے اور دیگر اعمال کے لیے لوگوں کو وِتر کے ذریعے قطعاً نہ روکا جائے ورنہ لوگوں کو تکلیف ہونے کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ لازم آئے گا۔
وأول وقت الوتر بعد العشاء وآخرہ ما لم یطلع الفجر۔ (درمختار : زکریا ۲؍۱۸)
ویستحب فی الوتر لمن یألف صلوٰۃ اللیل آخر اللیل فان لم یثق بالإنتباہ أوتر قبل النوم۔ (در مختار : ۲؍۲۸)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ۔(طبرانی کبیر:12102)(ابن ابی شیبہ:7692)
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ:كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلاَثٍة وَعِشْرِيْنَ رَكْعَةً فِيْ رَمَضَانَ۔(مؤطا مالک:281)
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ:كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7684)
وفی شرح المنیۃ : والصحیح أن الجماعۃ فیہا أفضل إلا أن سنتیہا لیست کسنیۃ جماعۃ التراویح۔ قال الخیر الرملی: وہذا الذی علیہ عامۃ الناس الیوم۔ (شامی : ۲؍۵۰۲)
عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵، کتاب الإیمان و شرائعہ،باب صفۃ المؤمن)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رمضان المبارک 1440
جزاك الله خير الجزاء
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں