منگل، 7 مئی، 2019

زبان سے نیت کرنے اور روزہ کی نیت میں "غداً" اور "الیوم" کا حکم

*زبان سے نیت کرنے اور روزہ کی نیت میں "غداً" اور "الیوم" کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زبان سے نیت کے الفاظ کہنے کا کیا حکم ہے؟
اور روزہ کی نیت میں جو "غداً" (جس کے معنی آئندہ کل کے آتے ہیں) کہا جاتا ہے اس کی بھی وضاحت فرمادیں۔
(المستفتی : ابوسعدین، پربھنی)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نیت دراصل دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے نیت کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، لیکن ناجائز اور بدعت بھی نہیں ہے، عوام الناس کے قلب و ذہن کو حاضر اور یکسو کرنے کے لئے فقہاء نے روزہ کی نیت کو زبان سے کہنے کو مستحسن لکھا ہے، تاہم زبان سے نیت کے الفاظ کہنے کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔

صاحب کتاب الفتاوی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مذکورہ مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں :

نیت دل کے ارادہ کا نام ہے نہ کہ زبان سے کہے ہوئے الفاظ کا، زبان سے مزید اطمینان اور ذہن کے استحضار کے لئے نیت کے الفاظ کہے جاتے ہیں، مثلاً : روزہ رکھنے کے ارادہ سے سحری کھانا خود نیت ہے، نیت کے الفاظ قرآن یا حدیث میں منقول نہیں ہیں، رہ گئی یہ بات کہ ’’غدًا‘‘ کے معنی کل کے ہیں، جب کہ قمری تاریخ غروب آفتاب سے بدلتی ہے، اور اس اعتبار سے صبح میں رکھا جانے والا روزہ ’’ آج ‘‘ ہی کا روزہ ہے، نیز بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ صبح کے بعد نیت کی، تو عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ’’یوم‘‘ (آج) کے بجائے "غدًا" (کل) کا لفظ لوگ استعمال کرتے ہیں، تو اس سے نیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ عُرف میں صبح کے طلوع ہونے سے آج اور کل کی تعبیر بدلتی ہے، اس لئے رات میں یہ کہنا کہ میں کل کے روزہ کی نیت کرتا ہوں، اسی صبح کے بارے میں نیت ہے، نیز نیت تو آج ہی روزہ رکھنے کی ہو، لیکن ناواقفیت کی وجہ سے لفظ "غدًا"(کل) کا استعمال کرلے تو اس سے بھی روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ اعتبار دل کے ارادہ کا ہے، اگر زبان سے الفاظ غلط بول دئے جائیں پھر بھی نیت ہی کا اعتبار ہوتا ہے، جیسے کوئی شخص ظہر کے ارادہ سے نماز پڑھ رہا ہے، لیکن غلطی سے زبان سے عصر کی نماز کی نیت کا اظہار کرلے تو یہ ظہر ہی کی نیت سمجھی جائے گی، نہ کہ عصر کی۔ (کتاب الفتاوی 266/3)

المسائل المھمۃ میں ہے :

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماہِ رمضان المبارک میں ہم روزے کی نیت سحر کے وقت، یا فجر کی اذان کے قریب قریب کرتے ہیں، پھر روزے کی نیت میں ’’غداً‘‘ یعنی ’’آئندہ کل‘‘ کا لفظ کیوں بولا جاتا ہے؟ ’’الیَوم‘‘ یعنی ’’آج‘‘ کا لفظ  کیوں نہیں کہتے؟

اُن کے اِس اِشکال کا جواب یہ ہے کہ :

رات گذرنے کے بعد جو صبح آرہی ہے، اس کو عربی زبان میں ’’ غَدًا ‘‘ کہا جاتا ہے، اور صبح ہوجانے کے بعد سے غروبِ آفتاب تک کے وقت کو ’’الیوم‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے نیتِ روزہ میں ’’أصُومُ غَدًا‘‘ (میں کل روزہ رہوں گا) کہا جاتا ہے، نہ کہ’’ أصُومُ الْیَوْمَ ‘‘ (آج روزہ رہوں گا)۔

نوٹ : صبح سے مراد صبح صادق ہے، یعنی وہ صبح جس کے طلوع سے دن کی ابتدا ہوتی ہے۔

ما في ’’ معجم لغۃ الفقہاء ‘‘ : الیوم : بفتح فسکون - الوقت لیلا أو نہارا قلیلا أو کثیرا ۔ وفي العرف : من طلوع جرم الشمس ولو بعضہا إلی غروب تمام جرمہا ۔ [۲] من طلوع الفجر الصادق إلی غروب تمام الشمس ۔ (ص/۵۱۵ ، الیوم ، المعجم الوسیط :ص/۷۷۰ ، و۱۲۹۶، القاموس الوحید :۲/۱۱۵۷، و۲/۱۹۱۷)=

ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : لا خلاف بین الفقہاء في أن مبدأ وقت الصبح طلوع الفجر الصادق ، ویسمی الفجر الثاني ، وسُمّي صادقا ؛ لأنہ بیّن وجہ الصبح ووضّحہ ، وعلامتہ بیاضٌ ینتشر في الأفق عرضًا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أما نہایۃ وقت الصبح ، فعند أبي حنیفۃ وأصحابہ : قُبیل طلوع الشمس ۔ (۷/۱۷۱، أوقات الصلاۃ ، مبدأ وقت الصبح ونہایتہ)

ما في ’’ الجوہرۃ النیرۃ ‘‘ : والسنۃ أن یتلفظ بہا بلسانہ فیقول إذا نوی من اللیل : نویتُ أن أصومَ غدًا للہ تعالی من فرض رمضان ، وإن نوی من النہار یقول : نویتُ أن أصوم ہذا الیوم للہ تعالی من فرض رمضان ۔ (۱/۳۲۹ ، کتاب الصوم ، بیروت ، المعتصر الضروري مع القدوري :ص/۲۱۹ ، ادارۃ القرآن کراچی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 شعبان المعظم 1439

1 تبصرہ: