*رمضان، جمعہ اور عیدین کی مبارکباد کا حکم*
سوال :
حضرت مفتی صاحب یہ آج کل جو سوشل میڈیا پر رمضان المبارک کی مبارکباد دی جارہی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ نیز جمعہ اور عید کی مبارکباد کا کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد سعید، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رمضان المبارک اور جمعہ کی مبارکباد دینا حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی حضراتِ صحابہ، تابعین، تبعِ تابعین اور بزرگانِ دین کے عمل سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے، لیکن اگر کسی شخص نے ایسا کہہ دیا تو ناجائز وبدعت بھی نہیں، تاہم احتیاط و سلامتی اسی میں ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ عوام الناس اسے کار ثواب سمجھنے لگتے ہیں، پس اگر کوئی سنت یا ثواب کی چیز سمجھ کر رمضان یا جمعہ کی مبارکباد دے تو بلاشبہ یہ بدعت اور گناہ کہلائے گا۔ موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں گمان یہی ہوتا ہے کہ اسے ثواب یا دین کا حصہ سمجھ کر عمل کیا جارہا ہے، لہٰذا بقدر استطاعت اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔
البتہ عیدین پر ایک دوسرے کو "تقبل اللہ منا و منكم" اور "عید مبارک" کہنے کو فقہاء نے مستحب و پسندیدہ لکھا ہے۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم: ۲۶۹۷)
والتہنئۃ بقولہ تقبل اللہ منا ومنکم لا تنکر بل مستحبۃ لورود الاثر بہاکما رواہ الحافظ ابن حجر عن تحفۃ عید الاضحیٰ لابی القاسم المستملی بسند حسن وکان اصحاب رسول اللہﷺ اذا التقوا یوم العید یقول بعضہم لبعض تقبل اللہ مناومنکم قال … قول الرجل لصاحبہ عید مبارک علیک ونحوہ ویمکن ان یلحق ہذا اللفظ بذلک فی الجواز الحسن واستحبابہ لما بینہما من التلازم۔ (الطحطاوی علی المراقی : ۵۳۰، باب احکام العیدین)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 شعبان المعظم 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں