وتر کی آخری رکعت میں شریک ہونے والا نماز کس طرح پوری کرے؟
سوال :
محترم مفتی صاحب! امید ہے کہ مزاج عالی بخیر ہوں گے۔
کسی بندہ کی وتر کی ایک یا دو رکعتیں چھوٹ جائے تو کیا وہ دعاء قنوت کیلئے دوبارہ رفع یدین کرےگا؟
(المستفتی : مولوی ارشد، کوپرگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی مقتدی کو وتر کی آخری رکعت امام کے ساتھ مل گئی ہو اور وہ اس میں دعائے قنوت پڑھ سکا ہو یا نہ پڑھ سکا ہو تب بھی وہ حکماً قنوت پڑھنے والا شمار ہوگا، لہٰذا ہر دو صورت میں وہ بعد میں قنوت نہیں پڑھے گا، بلکہ بقیہ دو رکعتیں بغیر دعائے قنوت کے پوری کرے گا۔
المسبوق برکعتین فی الوتر فی شہر رمضان إذا قنت مع الإمام في الرکعۃ الأخیرۃ من صلاۃ الإمام حیث لا یقنت في الرکعۃ الأخیرۃ، إذا قام إلی القضاء في قولہم جمیعاً، وکذٰلک إذا أدرکہ في الرکعۃ الثالثۃ في الرکوع ولم یقنت معہ لم یقنت فیما یقضي۔ (تاتارخانیۃ، ۲؍۳۴۵/بحوالہ کتاب النوازل)
وأما المسبوق فیقنت مع إمامہٖ فقط لأنہ آخر صلاتہ وما یقضیہ أولہا حکماً في حق القراءۃ وما أشبہہا وہو القنوت وإذا وقع قنوتہ في موضعہ بیقین لا یکرر لأن تکرارہ غیر مشروع۔ (شامی : ۲؍۴۴۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 رمضان المبارک 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں