*تراویح میں ختمِ قرآن کے موقع پر دعا کے لیے خواتین کو جمع کرنا*
سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ ایک مسجد میں مستقل اور مکمل تراویح ہوتی ہے جس میں صرف مرد حضرات شریک ہوتے ہیں، لیکن ختم قرآن مجید کے موقع پر دعا میں مستورات کو شریک کرنے کیلئے اعلان ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ تنویر، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کا سوال اہمیت کا حامل ہے، گذشتہ سال بھی یہ سوال بندے سے پوچھا گیا تھا، اس وقت سرسری طور پر جواب دے دیا گیا تھا، لیکن بعد میں اس مسئلے کی حساسیت کا ادراک ہوا کہ اگر فوری طور پر اس کی قباحت کو بیان نہیں کیا گیا تو یہ معاملہ سنگین رُخ اختیار کرسکتا ہے، اس لئے کہ جگہ جگہ مساجد میں ختمِ قرآن کے موقع پر دعا میں شرکت کی غرض سے خواتین کا جو جمِ غفیر گھروں سے نکلے گا اور مرد وزن کے اختلاط کی وجہ سے دین و شریعت کے نام پر جو فتنے برپا ہوں گے، ہم اور آپ اس کا گمان نہیں کرسکتے۔ لہٰذا بندے نے ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں یہ سوال ارسال کیا تاکہ بڑے ادارے کے جواب کی اہمیت کی وجہ سے اس پر اعتراض کی گنجائش نہ رہے، اس لئے پہلے وہی سوال و جواب من و عن نقل کردیا جارہا ہے جس کا جواب نمبر 164305 ہے۔ اس جواب کی لنک بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ہمارے شہر کی بعض مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دعا کے لیے خواتین کو بھی جمع کیا جاتا ہے ، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے ؟ براہ کرم مفصل مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
جواب : تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر دعا میں شرکت کے لیے عورتوں کو جمع ہونے نیز رات کے وقت آمد ورفت میں بہت سے مفاسد ہیں، حضرت اقدس تھانوی نے اصلاح الرسوم اور بہشتی زیور میں ان مفاسد کو بیان کیا ہے، ان کتابوں کی مراجعت بہت مفید ہوگی۔
اس مسئلے کو بندہ مزید واضح کردینا چاہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت تھی، وہ زمانہ خیر القرون کا تھا فتنوں سے محفوظ تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بہ نفس نفیس تشریف فرما تھے، وحی نازل ہوتی تھی، نئے نئے احکام آتے تھے، نئے مسلمان تھے نماز وغیرہ کے مسائل سیکھنے کی ضرورت تھی اور سب سے بڑھ کر حضور اقدس صلی ﷲ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوتا تھا، ان تمام باتوں کے باوجود عورتیں نماز باجماعت پڑھنے کی مکلف نہیں تھیں صرف اجازت تھی اور افضل یہی تھا کہ عورتیں گھروں کے اندر کوٹھری میں نماز پڑھیں۔ لہٰذا جب نماز جیسی افضل ترین عبادت کے لیے آپ علیہ السلام کے زمانے حکم یہ تھا کہ اسے گھر میں ادا کرنا افضل ہے، اس کے بعد زمانے میں نماز کے لیے گھر سے نکلنے کو ظہورِ فسادِ زمانہ کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ممنوع قرار دے دیا تھا، تو پھر انٹرنیٹ اور موبائیل کے اس دور میں جبکہ لوگوں کی حیا اور پردہ کا جنازہ نکلا ہوا ہے تراويح میں ختم قرآن کے موقع پر دعا میں شرکت کے لئے خواتین کو گھروں سے نکلنے کی اجازت کیونکر ہوسکتی ہے؟ بلکہ موجودہ دور میں اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے، لہٰذا خود بھی اس سے اجتناب کریں اور حتی الامکان دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کریں۔
الفتوی فی زماننا علی أنہن لا یخرجن وإن عجائز إلی الجماعات لا فی اللیل ولا النہار لغلبۃ الفتنۃ والفساد وقرب یوم المعاد۔ (نفع المفتی والسائل ۹۳، شامی زکریا ۲؍۳۰۷، بیروت ۲؍۲۶۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 رمضان المبارک 1440
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں