اتوار، 28 اپریل، 2019

تراویح میں اذان کا اسپیکر جاری رکھنا

*تراویح میں اذان کا اسپیکر جاری رکھنا*

سوال :

مفتی صاحب تراویح کے وقت مسجد کے اذان کا اسپیکر چالو رکھنا کیسا ہے؟ اس کی آواز سے مسجد کے اطراف کی مستورات تراویح پڑھ سکتی ہیں؟ اور کیا ان کی نماز ہوگی؟
(المستفتی : محمد سلمان، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز باجماعت میں امام کی آواز اتنی ہونی چاہیے کہ نماز میں شامل مقتدی حضرات آسانی سے سن لیں، اتنی زور سے تلاوت کرنا یا اسپیکر کی آواز اتنی تیز رکھنا کہ مقتدی حضرات کا ذہن و دماغ کو قرأتِ قرآن سے نشاط ہونے کے بجائے تکلیف ہونے لگے شریعتِ مطھرہ کی نظر میں ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔

صورت مسئولہ میں تراویح کے وقت اذان کا اسپیکر جاری رکھنا شرعاً درست نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔ (سورہ انفال، آیت 204)
ترجمہ:اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

چنانچہ جب اذان کے اسپیکر سے قرآن کی تلاوت ہوگی اور آواز دور دور تک پہنچے گی، جس کی وجہ سے قرآنِ کریم کی مذکورہ آیت پر عمل نہیں ہوسکے گا، اور قرآن مجید کی بے ادبی ہوگی، اسی طرح تیز آواز کی وجہ سے مریض یا سونے والوں کو تکلیف ہوگی اور انفرادی عبادت کرنے والوں کو خلل ہوگا۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب ضروری ہے۔

اذان کے اسپیکر میں قرأت اور تکبیر کی آواز سن کر اپنے گھروں میں نماز تراویح میں امام کی اقتداء کرنے والی خواتین کی نماز بھی درست نہیں ہوگی، اس لئے کہ اس صورت میں اتصال صفوف نہیں پایا جائے گا جو اقتداء کے لیے ضروری ہے۔

والجہرأفضل في غیر ذلک؛ لأن العمل فیہ أکبر، ولأنہ یتعدي نفعہ إلی غیرہ، ولأنہ یوقظ قلب القارئ، ویجمع ہمہ إلی الفکر، ویصرف سمعہ إلیہ، ویطرد النوم ویزید النشاط۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ۱۶؍۱۹۲)

وإذا جہر الإمام فوق حاجۃ الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما یجہر لإسماع القوم لیدبروا في قرأتہ، لیحصل إحضار القلب۔(الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ،۱/۱۲۹)

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم.(سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵، کتاب الإیمان و شرائعہ،باب صفۃ المؤمن، ط: دیوبند)

ولواقتدیٰ خارج المسجد بإمام في المسجد إن کانت الصفوف متصلۃ جاز وإلافلا لأن ذلک الموضع بحکم اتصال الصفوف یلتحق بالمسجد الخ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، باب تقدم الإمام علی الماموم، ۱/۳۶۲)

المانع من الاقتداء ثلاثۃ اشیاء ( منہا ) طریق عام یمرفیہ العجلۃ والاوقارہکذافی شرح الطحاوی اذاکان بین الامام وبین المقتدی طریق ان کان ضیقا لایمرفیہ العجلۃ والاوقار لایمنع وان کان واسعا یمرفیہ العجلۃ والاوقاریمنع کذافی فتاوی قاضی خان۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱ ؍ ۸۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 شعبان المعظم 1440

2 تبصرے: