*بھاتی میں بچی ہوئی رقم کا کیا جائے؟*
سوال :
ہمارے یہاں جب کسی کاانتقال ہوتا ہے میت کے اقرباء کے لیے محلہ والےاور دیگر حضرات کھانے کا انتظام کرتے ہیں جسے ہمارے عرف میں بھاتی کہتے ہیں کبھی ایک شخص ہی اس کا انتظام کرتا ہے اور کبھی متعددشخص بھاتی کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں اس صورت میں بسا اوقات یہ رقم بچ جاتی ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس بچی ہوئی رقم کا مصرف کیا ہے؟ کیا اسے مسجد ومدرسہ میں دیا جاسکتا ہے؟
(المستفتی : محمد معاذ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں میت کے اہل خانہ کو کھانا دینے کے عام طور پر تین طریقے رائج ہیں، پہلا یہ کہ کوئی فرد واحد اہل خانہ کے ایک وقت کے کھانے کی ذمہ داری لے لیتا ہے، لہٰذا اس میں پیسے بچنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ میت کے گھر کے اطراف میں رہنے والے چند پڑوسی پیسے جمع کرکے اہل خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، اس میں کبھی کبھار کچھ رقم بچ جاتی ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس رقم کو کسی ذمہ دار ساتھی کے پاس رکھ دیا جائے اور آئندہ مشورہ سے کسی کی بھاتی میں استعمال کرلیا جائے۔ تاہم اگر اس رقم کو مسجد یا مدرسہ میں دے دیا گیا تب بھی اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رقم عموماً بہت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بھاتی دینے والے افراد کی طرف سے صراحتاً یا پھر دلالۃً اس کی اجازت ہوتی ہے۔
تیسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دور دراز کے رشتہ دار دوست احباب مل کر بھاتی کا انتظام کرتے ہیں ایسی صورت میں جب کچھ رقم بچ جاتی ہے تو اس کا واپس کرنا بھی عموماً ممکن نہیں ہوتا، نیز بھاتی لکھانے والے افراد کی طرف سے اس کی صراحتاً یا پھر دلالۃً اجازت ہوتی ہے کہ اسے میت کے نام سے مسجد یا مدرسہ میں دے دیا جائے، چونکہ یہ رقم عطیہ ہی ہوتی ہے، لہٰذا اس رقم کا مسجد یا مدرسہ میں دینا جائز ہے۔
والإذن نوعان : صریح ودلالۃ ۔۔۔ وأما الدلالۃ فہي أن یقبض الموہوب لہ العین في المجلس ولا ینہاہ الواہب فیجوز قبضہ استحسانًا۔ (بدائع الصنائع، بیان شرائط صحۃ القبض، ۵؍۱۷۶-۱۷۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شعبان المعظم 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں