*جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب جمعہ کے دن غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اگر کوئی شخص جمعہ کو غسل نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : ساجد احمد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کے دن غسل کرنا مسنون و مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں ہے، اس لئے اگر کسی عذر کی وجہ سے جمعہ کا غسل نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، لیکن بغیر کسی عذر کے اس کے ترک کی عادت بنا لینے میں گناہ کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا احتیاط اس میں ہے کہ بغیر عذر کے جمعہ کے دن کا غسل ترک کرنے سے بچنا چاہئے۔
عن سمرة بن جندب رضي الله عنه أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: «من توضأ يومَ الجمعة فبها ونِعْمَتْ، ومن اغتسل فالغسلأفضل» رواه أبو داود رقم (354) في الطهارة، باب في الرخصة في ترك الغسل يوم الجمعة، والترمذي رقم (497) في الصلاة، باب ما جاء في الوضوء يوم الجمعة، والنسائي 3 / 94 في الجمعة، باب الرخصة في ترك الغسل يوم الجمعة.
لأن ترك السنة مذموم. قال النبي صلي الله عليه وسلم من رغب عن سنتي فليس مني. أخرجه (البخاري7/2 ،رقم،5063)
لمافی الهندية (۱/۱۶): وأربعة سنة وهي غسل يوم الجمعة ويوم العيدين ويوم عرفة وعند الإحرام،
وفی الدر المختار (۱/۱۶۸): (وسن لصلاة جمعة و) لصلاة (عيد) هو الصحيح كما في غرر الأذكار وغيره.… (و) لأجل (إحرام و) وفی جبل (عرفة) بعد الزوال۔ (قوله: وسن إلخ) هو من سنن الزوائد، فلا عتاب بتركه كما في القهستاني.
مستفاد : نجم الفتاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1440
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته محترم مفتی صاحب ،
جواب دیںحذف کریںچونکہ عورتوں کو جمعہ کے روز کئی کام ہوتے ہیں بچوں نہلانا، کپڑے دھونا، پکانا وغیرہ وغیرہ اس صورت میں اگر جمعرات کو مغرب بعد نہا لے تو کیا یہ عمل مناسب ہے؟
رہنمائی فرمائیں عین نوازش ہوگی.
جی۔
حذف کریںکوئی قباحت نہیں ۔
واللہ تعالٰی اعلم
جزاکم الله خيرا کثیراً کثیرا
حذف کریں