✍ محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ شہرِ عزیز مالیگاؤں میں مکاتب و مدارس کا جال بچھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے حفاظ کی تعداد میں الحمدللہ دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، سینکڑوں کی تعداد میں ہر سال مکاتب ومدارس سے حفاظ کرام فراغت حاصل کررہے ہیں، جو ہمارے لیے بڑی سعادت اور فخر کی بات ہے لیکن اسی کے ساتھ اس بات کی فکر بھی ان حفاظ کے اساتذہ اور والدین کو دامن گیر ہے کہ ان بچوں کا حفظ کس طرح باقی رہے؟ کہیں قرآن کریم کی عدم مشغولی کی وجہ سے ان کا حفظ کمزور یا معاذاللہ ختم نہ ہوجائے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اس مسئلے پر خصوصی توجہ دی جائے اور اس کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جائے تاکہ نئے حفاظ کرام کا قرآن یاد رہے اور وہ قرآن بھول کر کسی بھی قسم کی وعید کے مستحق نہ ہوں۔ اللھم احفظنا منہ۔ چنانچہ اس مضمون میں ہم ان مسائل کے آسان اور مؤثر حل پیش کریں گے۔
سب سے پہلا حل تو یہ ہے جو عموماً بیان کیا جاتا ہے کہ نئے حفاظ کرام تراویح سنانے کے بھروسے نہ رہیں بلکہ روزآنہ قرآن مجید پڑھنے کا معمول بنائیں، بلاشبہ حفاظ کرام کو روزآنہ قرآن مجید پڑھنے کا معمول بنانا چاہیے، لیکن ایسا کہنے والے سینئر حفاظ بعض تو وہ ہیں جو خود پینتیس، چالیس بلکہ پینتالیس سال سے جیسے تیسے تراویح سناکر ریکارڈ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، کیا یہ لوگ نئے حفاظ کے لیے اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتے؟ جس بات کا نئے حفاظ کو مشورہ دیا جارہا ہے خود اس پر عمل کرکے بتا دیا جائے تو ان شاء اللہ زیادہ بہتر اور مؤثر ثابت ہوگا۔ اگر یہ لوگ نئے حفاظ کے لیے اپنی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں تو نئے حفاظ کی ایک بڑی تعداد کو مساجد میں تراویح سنانے کی سعادت مل سکتی ہے، معلوم ہوا کہ اس رائے پر غور کرنے اور مزید کوئی مؤثر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا حل یہ پیش کیا گیا ہے کہ ایک مسجد میں ایک سے زائد حافظ تراویح سنائیں، یہ حل بھی مفید ہے اور متعدد مساجد میں اس کے مطابق عمل بھی کیا جارہا ہے لیکن اب بھی بعض مساجد کے ذمہ داران یا ائمہ اسے پسند نہیں کررہے ہیں کہ وہاں ایک سے زائد امامِ تراویح ہو، لہٰذا بقیہ مساجد میں اس کی کوشش کی جائے کہ وہاں بھی دو تین حفاظ کرام مل کر تراویح سنائیں، ویسے حفاظ کرام کی کثرت کی وجہ سے یہ حل بھی دن بدن ناکافی ثابت ہوتا جارہا ہے، لیکن کسی حد تک فائدہ کی بہرحال امید ہے۔
تیسرا حل یہ ہے کہ نئے حفاظ جنہیں مسجد میں تراویح کے لیے جگہ نہ مل سکے وہ اپنے گھروں میں گھر کی خواتین کے ساتھ باجماعت نمازِ تراویح ادا کرلیں، اس پر بھی اگرچہ عمل ہورہا ہے لیکن ایسے افراد کی تعداد بہت معمولی ہے، جبکہ موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے دائرہ کو وسیع تر کیا جائے، کیونکہ یہ عمل مفید و مؤثر ثابت ہوسکتا ہے، اور بہت سی خواتین چونکہ تراویح سے متعلق غفلت کا شکار ہیں، جبکہ تراویح مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت مؤکدہ ہے، لہٰذا اس کی برکت سے خواتین کا اس سنت پر عمل بھی ہوجائے گا۔ البتہ اس میں درج ذیل چند باتوں کا خیال رکھا جائے۔
مذکورہ طریقے پر تراویح کی جماعت کرنے میں سب سے مامون و محفوظ طریقہ یہ ہے کہ تراویح پڑھانے والے حفاظ ایک سے زائد ہوں اور وہ بالغ تو ہوں لیکن کم عمر ہی ہوں، اور بڑی عمر کے حفاظ اپنے گھر کی عورتوں کو تراویح پڑھائیں باہر کی نامحرم عورتیں اس میں شامل نہ ہوں، اور بہتر ہے کہ تراویح پڑھانے والے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھ کر آئیں ورنہ فرض نماز غیرمسجد میں پڑھنے کی وجہ سے مسجد کے ثواب سے محرومی ہوگی، تاہم عشاء کی نماز باجماعت وہیں گھر میں ادا کریں تب بھی نماز درست ہوجائے گی۔ نیز جس گھر میں تراویح ادا کی جائے بس اسی گھر کی پاس پڑوس کی عمردراز عورتیں تراویح کے لیے آئیں، دور دراز کی خواتین تراویح کے لیے گھر سے نہ نکلیں، بالخصوص نوجوان لڑکیاں، اپنے گھر میں ہی انفرادی طور پر تراویح ادا کریں تاکہ کسی بھی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ رہے۔ امام تراويح کے لیے عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے۔ اگر امام تنہا ہو بقیہ سب عورتیں ہوں مقتدیوں میں مرد کوئی بھی نہ ہو تو امامت کی نیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مقتدی عورتوں میں اس امام کی کوئی محرم رشتہ دار یا بیوی بھی شامل ہو ورنہ صرف غیرمحرم خواتین کی امامت کرنا مکروہ ہے۔
خواتین کی امامت خواتین کے حق میں بھی اگرچہ بعض فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے، لیکن تراویح کے باب میں بعض علماء نے گنجائش لکھی ہے، چنانچہ صاحب کتاب النوازل حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں کہ اگر کوئی حافظہ عورت اپنا قرآن یاد کرنے کی غرض سے تراویح میں قرآنِ کریم سنائے تو اس کی گنجائش ہے، اس لئے کہ ام المؤمنین سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس صورت میں امامت کرنے والی خاتون صف کے بیچ میں کھڑی ہوگی مردوں کی طرح صف سے آگے نہیں بڑھے گی۔ (کتاب الآثار للامام محمدؒ ۱؍۲۰۳-۲۰۶، مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۴۰۳/بحوالہ کتاب المسائل)
واضح رہے کہ حفاظ کرام کا تراویح میں قرآن سنانا فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ عام لوگوں کی طرح ان پر بھی تراویح کی نماز ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، لیکن تجربات و مشاہدات اس پر دلالت کرتے ہیں کہ کماحقہ تراویح میں قرآن سنانے کی برکت سے قرآن کریم یاد رہتا ہے، چنانچہ یہی تجربات و مشاہدات اس تحریر کے وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں، لہٰذا حفاظ کو تراویح میں قرآن مجید سنانے کی فکر کرنی چاہیے۔
اللہ تعالٰی حفاظ کرام پر اپنا خصوصی فضل و کرم نازل فرمائے تاکہ وہ سال بھر قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں اور اپنے حفظ کو باقی رکھیں۔ آمین ثم آمین
ماشاء اللہ .عمدہ رہنمائی 🌺
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ...
جواب دیںحذف کریںMash Allah bahut khub
جواب دیںحذف کریںماشاءاللّٰه
جواب دیںحذف کریںآج کل حفظ چھوٹی بچیاں بھی کر رہی ہیں انکے معاملے میں کیا راے دینگے۔۔۔
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ...... عمدہ رہنمائی.... 💐🌷
جواب دیںحذف کریں