*فارغینِ مدارس کا اپنے نام کے ساتھ مدرسہ کی نسبت لگانا*
سوال :
حضرت مولانا مفتی محمد عامر نثار احمد صاحب
سوال یہ ہے کہ بعض دینی مدارس سے فارغ ہونے والے اپنے آپ کو قاسمی، مظاہری، ندوی، وغیرہ نسبتی ناموں سے لاحق کرتے ہیں، حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کہ اکثر بڑے، اکابر علماء و مشائخ اس طرح کی نسبتوں سے گریز کرتے ہیں، شریعت میں اس کی کوئی حیثیت ہے؟؟؟ کیا اس طرح کی نسبتیں ضروری ہیں؟؟ غضب تو یہ ہے کہ اب مکاتب سے حافظ ہی نہیں بلکہ ناظرہ پڑھ لینے والے لوگ بھی اس مکتب کے اعتبار سے نسبتی نام رکھ رہے ہیں، ایک دعوت نامہ نظر نواز ہوا جس میں حفاظ طلباء کو عکرمی عکرمی کی نسبت سے سرفراز کیا گیا ہے؟ آپ سے سوال یہ ہے کہ اس نسبتی نام کے کیا معنی ہونگے؟؟ بعض مرتبہ کوئی شخص خود سے نہیں چاہتا لیکن اساتذہ یا منتظمین مکاتب ومدارس اس طرح کی نسبتیں چسپاں کردیتے ہیں، اس میں ایک تشویشناک امر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے باپوں کا کوئی علم نہیں ہوتا، اور نسبتی نام موجود ہوتا ہے!!! سنا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو انکے والدین یا کسی ایک کی طرف منسوب کیا جائے!! آخر ایسا کیوں ہوگا؟؟ امت مسلمہ پتہ نہیں کتنے فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے، کیا اس طرح کے نسبتی ناموں سے تقسیم در تقسیم جیسا قبیح اور شنیع فعل وجود میں نہیں آرہاہے؟؟؟ تجربات اس کے شاھد ہیں،
امید ہے کہ سوال کا مقصد سمجھ گئے ہوں گے، مدلل اور تشفی بخش جواب مطلوب ہے، اللہ تعالی آپ کو اجرعظیم سے نوازے۔آمین
(المستفتی : امتیاز احمد اقبال احمد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فارغینِ مدارس کا اپنے نام کے ساتھ اپنے ادارے کی نسبت لگانا شرعاً جائز اور درست ہے، یہ تعریف یعنی پہچان کے باب سے ہے، اور تعریف کا باب بہت وسیع ہے، تعریف کبھی ولاء سے ہوتی ہے جیسے کریب مولی ابن عباس، جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کبھی وطن کی طرف ہوتی ہے، جیسے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ۔کبھی صنعت وحرفت سے ہوتی ہے جیسے مشہور حنفی فقیہ احمد ابن محمد قدوری، بعض علماء کے قول کے مطابق آپ ہنڈیا بناتے اور فروخت کرتے تھے، جس کی وجہ سے آپ قدوری لقب سے مشہور ہوئے۔ کبھی ماں کی طرف نسبت کی جاتی ہے جبکہ والد بھی معروف ہوتے ہیں، جیسے اسماعیل ابن علیۃ۔ بعض مرتبہ کنیت سے ہوتی ہے جیسے ابوہریرہ، ابوحنیفہ، ابن جوزی، ابن الہثیم ۔ نیز تصوف میں بزرگانِ دین کی طرف ان کے سلسلے کی نسبت کی گئی ہے، جیسے سلسلہ قادریہ شیخ عبدالقادر جیلانی، اور سلسلہ نقشبندیہ حضرت بہاء الدین نقشبند رحمھما اللہ کی طرف منسوب ہے۔
بلاشبہ ماضی میں اور عصر حاضر کے بیشتر اکابر علماء نے اپنے نام کے ساتھ ادارے کی نسبت نہیں لکھی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ انہوں نے اسے ناجائز لکھا ہو یا سمجھا ہو، ان میں سے بعض شخصیتیں تو ایسی تھیں کہ ان کی نسبت کے بغیر بھی ایک عالَم ان سے آشنا تھا، لہٰذا انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود ماضی قریب کے بعض انتہائی معتبر و مؤقر علماء کرام نے اپنے نام کے ساتھ ادارے کی نسبت لکھی ہے اور انہیں ان کی حیات و بعدالممات ادارے کی نسبت کے ساتھ یاد کیا گیا ہے، دارالعلوم دیوبند کے فارغین میں قاری محمد طیب قاسمی، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا سالم قاسمی، دارالعلوم ندوۃ العلماء سے علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا علی میاں ندوی، مولانا عبدالعلی ندوی، رحمھم اللہ وغیرھم ہیں۔
درج بالا تفصیلات سے مزید وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ ادارے کی نسبت لگانا جائز ہے، لیکن اسے ضروری یا کارِ ثواب سمجھنا قطعاً درست نہیں ہے، جیسا کہ سوال نامہ سے سمجھ میں آتا ہے اور خود بندے کو بھی گمان ہوتا ہے کہ بعض لوگ اسے ضروری سمجھ رہے ہیں، تب ہی تو نسبت صحیح بن رہی ہو یا نہ بن رہی ہو لیکن اسے استعمال کیا جارہا ہے، جیسے مدرسہ عکرمہ کے فارغین کے لیے عکرمی نسبت لگانا، عکرمی یہ کوئی نسبت نہیں ہوئی، بلکہ یہ ایک بے معنی لفظ بن جائے گا۔ اسی طرح ناظرہ قرآن کے فارغین کے ساتھ بھی ادارے کی نسبت بے محل ہے اور سراسر حماقت ہے، جو شریعت کے مزاج کے خلاف بھی ہے، لہٰذا اس سے باز رہنا چاہیے۔ نیز صرف حفاظ کو تو اب اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے کیونکہ شہر عزیز میں حفاظ کرام کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے، ادارتی نسبت کی وجہ سے اب ناموں میں بڑا مغالطہ ہوگا، اسی طرح سلاسل کی طرف نسبت شیوخ کے لیے تو مناسب لگتی ہے، لیکن آج کل عام بے پڑھے لکھے مریدین بھی بڑی بڑی نسبتیں اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہیں، جس کی وجہ سے فرقِ مراتب کا خیال کرنا بھی دشوار ہورہا ہے، لہٰذا اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
البتہ نسبت لگانے والے فضلائے مدارس ادارتی تعصب کا شکار ہوں اور فرقہ بندی کرنے لگیں تب تو اس کے مذموم و ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہ ہوگا کہ حدیث شریف میں بھی اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ تاہم یہ پہلو بھی پیشِ نظر رہے کہ جن حضرات کو ادارتی تعصب یا فرقہ بندی کرنا ہی ہے وہ تو بغیر نسبت لگائے بھی یہ کام کرسکتے ہیں، لہٰذا صرف نسبت اختیار کرنے والوں کے بارے میں یہ گمان رکھنا نا انصافی ہی کہلائے گا۔
اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آنجناب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔( کہ آپ نے ایک نازک اور اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی، جس پر عموماً غور نہیں کیا جاتا۔ امید ہے کہ لاعلم حضرات اس سوال جواب سے اس مسئلے کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں گے۔) اور ہم سب کو اخلاص عطا فرمائے۔آمین
قال اللہ تعالٰی : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔(سورۂ حجرات، آیت ١٣)
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَکِّيِّ يَعْنِي ابْنَ أَبِي لَبِيبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَی عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَی عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَی عَصَبِيَّةٍ۔(سنن ابوداؤد)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1440
اسی لئے بندہ بطورِ پہچان (لتعارفوا) اپنی برادری (انصاری) کی نسبت لگاتا ہے-
جواب دیںحذف کریں