*شب برأت، کیا کریں اور کیا نہ کریں؟*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام! نصف شعبان کی رات یعنی شب برأت بڑی فضیلت والی رات ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں، دعائیں قبول کرتے ہیں، اور لاتعداد بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں، لہٰذا اس رات کی فضیلت واہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نفل اور قضاء نمازیں جس قدر ہوسکے ادا کریں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکرکریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں انجام دی جاسکتی ہیں، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اعمال جو غیر ثابت شدہ یا بدعت ہیں، اس رات میں رواج پاگئے ہیں، اور انہیں اس رات کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے، جن کا جاننا اور ان سے بچنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔
محترم قارئین! شیعہ کہتے ہیں کہ پندرہ شعبان ان کے امام غائب کی پیدائش کا دن ہے، اور بعض شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے غائب امام کی پندرہ شعبان کو واپسی ہوگی، لہٰذا وہ لوگ اس خوشی میں اچھے کھانے حلوے وغیرہ بناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں، غرض شیعہ اس دن کو تہوار کی طرح مناتے ہیں، ان کی دیکھی دیکھا ہمارے کم علم عوام بھی اس دن کو تہوار کی طرح منانے لگے۔ حلوے کے ساتھ فاتحہ خوانی کی بدعت بھی چل نکلی، یہ سب شیعوں کی نقالی، ان کی مشابہت اور بدعت ہے، جن سے اجتناب لازم ہے۔
اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر و متعین نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب برأت میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اور اس کی فلاں فلاں پرکشش فضیلت بیان کردی، ایسی کسی بھی نماز کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح کسی مخصوص سورت کی تلاوت، دعا اور ذکر کا بھی کوئی ثبوت معتبر روایات سے نہیں ملتا۔ لہٰذا ان سب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
نیز اس رات بیری کے پتوں سے غسل کرنے کی من گھڑت فضیلت بھی بیان کی گئی جو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اسے مجربات میں شمار کرکے اس کی اجازت دی جاسکتی ہے، کیونکہ اگر ایسی چیزوں کی اجازت دے دی گئی تو رفتہ رفتہ یہ اعمال شب برأت کا حصہ بن جائیں گے۔
شب برأت میں قبرستان جانے کو اس رات کی مستقل سنت سمجھنا بھی درست نہیں ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پندرہ شعبان کی رات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قبرستان تشریف نہیں لے گئے تھے، بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عام معمول تھا کہ آپ رات کے آخری پہر میں بقیع تشریف لے جاتے تھے اور اہل بقیع کے لیے دعا فرماتے، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے، اسی معمول کے دوران زندگی میں ایک مرتبہ پندرہ شعبان کی رات میں بھی تشریف لے گئے تھے اور واپسی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے ملاقات ہوئی تو آپ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی۔ لیکن اس میں کہیں بھی آپ نے اس رات قبرستان جانے کا حکم یا ترغیب نہیں دی، لہٰذا اس کا بھی خوب خیال رکھا جائے۔
اس رات کے دوسرے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کو سنت سمجھنا محقق قول کے مطابق صحیح نہیں ہے، اس لئے اس روزے کا حکم ابن ماجہ کی جس روایت میں آیا ہے وہ سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے محققین علماء کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، لہٰذا اس روایت سے کوئی حکمِ شرعی (یعنی اس روزے کا مسنون و مستحب ہونا) الگ سے ثابت نہیں ہوگا۔ البتہ ہر مہینہ ایام بیض تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنا مسنون و مستحب ہے، پس اگر کوئی تیرہ، چودہ، پندرہ شعبان کو ایامِ بیض کی نیت سے یا صرف پندرہ شعبان کو اس نیت سے روزہ رکھ لے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شعبان میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے، میں کثرت سے تو روزہ نہیں رکھ سکتا، کم از کم ایک روزہ تو رکھ لوں تو امید ہے کہ اسے سنت پر عمل کا ثواب مل جائے گا۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، بدعات وخرافات سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
بہت خوب جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا
جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاك اللهُ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب جناب بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںشطرنج کھیلنا کیسا ہے؟
جواب دیںحذف کریںناجائز ہے
حذف کریںJazakallah
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ جزاکاللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللّہ
جواب دیںحذف کریںاللہ پاک آپکے علم میں مزید برکت فرمائے
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جزاک اللّٰه
جواب دیںحذف کریںMasha allah.jazakallah mufti sahab
جواب دیںحذف کریںجزاك اللهُماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںjizak allah
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ مختصر اور جامع
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت خوب اللھم زد فزد
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیرا فی الدنیا والآخرۃ
جواب دیںحذف کریںبہترین رہنمائی
عمدہ پیشکش
جواب دیںحذف کریںصلوۃ التسبیح کا کیا حکم ہے ؟
جواب دیںحذف کریںتفصیلی جواب مطلوب ہے
جزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیر
جواب دیںحذف کریںMasha Allah bahut Umda. bahut sare doubt clear ho gaye. Jazak Allah
جواب دیںحذف کریں