*پندرہ شعبان کے روزے کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا مسنون ہے؟ کیا حدیث شریف میں اس کا حکم ہے؟ اگر ہے تو اس روایت کی کیا حیثیت ہے؟ ہمارے یہاں چونکہ پندرہ شعبان کا روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اگر یہ روزہ ثابت نہیں تو اس کی اصلاح کس طرح ہوگی؟ براہ مہربانی تمام سوالات کے جوابات مفصل عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد فاروق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شعبان کی کسی مخصوص تاریخ بشمول پندرہ شعبان کو روزہ رکھنے کی الگ سے فضیلت کسی صحیح یا معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔
پندرہ شعبان کے روزے سے متعلق سنن ابن ماجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت ہے، اسے محدثین نے سخت ضعیف بلکہ بعض نے موضوع تک کہا ہے، اس کی سند میں ایک راوی "ابن ابی سبرہ" ہے جو علماء کے نزدیک متہم بالکذب اور متہم بالوضع ہے، یعنی یہ شخص جھوٹا ہے اور حدیث گھڑتا تھا۔ (١)
مولانا منظور نعمانی ؒ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں :
یہ حدیث سند کے لحاظ سے نہایت ضعیف قسم کی ہے، اس کے ایک راوی "ابو بکر بن عبداللہ" (ابن ابی سبرہ) کے متعلق ائمۂ جرح و تعدیل نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔ (معارف الحدیث ۴/۱۷۴)
شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ابو بکر بن عبداللہ بن محمد بن ابی سبرہ شدید الضعف، متہم بالکذب و الوضع ہے، ا ور جو متہم بالکذب و الوضع ہو اس کی روایت محدثین کے اصول پر (بطورظن غالب) موضوع ہے، اور اگر اس روایت کو موضوع نہ کہیں بلکہ صرف ضعیف ہی قرار دی جائے جیسا کہ منذری، عراقی اور بوصیری کی رائے ہے تو بھی یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے، اس لئے کہ یہ شدید الضعف ہے، اور شدید الضعف حدیث نہ باب اعمال میں معتبر ہے نہ فضائل میں، کما صرح بہ الحافظ ابن حجر ؒ وتبعہ السخاویؒ والسیوطیؒ وغیرھما۔ (نوادر الحدیث مع اللآلی المنثورہ ۲۶۰/بحوالہ موضوع احادیث سے بچیے)
مفتی سلمان منصورپوری لکھتے ہیں :
شبِ برأت یعنی شعبان کی پندرہویں شب میں عبادت کرنا بعض روایات سے ثابت ہے، اگرچہ وہ روایات اونچے درجہ کی نہیں ہیں؛ لیکن فضائل کے باب میں عمل کی گنجائش ہے، مگر اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ نفل نماز جماعت کے ساتھ نہ پڑھی جائے؛ البتہ دن میں روزہ رکھناکسی صحیح حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے۔ ابن ماجہ شریف میں ایک روایت ہے، وہ روایت بھی عبد الرحمن بن ابی سبرہ کی وجہ سے موضوع کے درجہ میں ہے، اس لئے اسی دن روزہ رکھنے کا استحباب ثابت نہیں ھوسکتا؛ البتہ ایامِ بیض کے اعتبار سے اس دن روزہ رکھنا منع بھی نہیں ہے۔ (کتاب النوازل : ٦/١٩٥)
خلاصہ یہ کہ اساطین امت کے نزدیک ابن ماجہ کی اس روایت کوئی حیثیت نہیں ہے، لہٰذا اس روایت سے کوئی حکمِ شرعی (یعنی اس روزے کا مسنون و مستحب ہونا) الگ سے ثابت نہیں ہوگا۔
البتہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں : رسول کریم ﷺ ایام بیض میں بغیر روزہ نہیں رہا کرتے تھے نہ گھر میں اور نہ سفر میں۔ (٢)
ایام بیض سے مراد چاندنی راتوں کے دن ہیں یعنی قمری مہینوں کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ لہٰذا ایام بیض میں بیض سفید روشن، لیالی یعنی ان راتوں کی صفت ہے جن کے دنوں کو ایام بیض کہا جاتا ہے، ان راتوں کو بیض اس لئے کہتے ہیں کہ ان راتوں میں چاندنی اول سے آخر تک رہتی ہے گویا پوری رات روشن و چمکدار رہتی ہے یا پھر کہا جائے گا کہ بیض دنوں کی ہی صفت ہے اور ان دنوں کو بیض اس لئے کہتے ہیں کہ ان ایام کے روزے گناہوں کی تاریکی کو دور کرتے ہیں اور قلوب کو روشن و مجلیٰ کرتے ہیں۔
اسی طرح بعض معتبر روایات میں ملتا ہے کہ ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں نے کثرت کے ساتھ نبی ﷺ کو شعبان میں روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھا، نبی ﷺ اس کے صرف چند دن کو چھوڑ کر تقریباً پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے۔ (٣)
چنانچہ ہر مہینہ ایام بیض تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنا مسنون و مستحب ہے، پس اگر کوئی تیرہ، چودہ، پندرہ شعبان کو ایام بیض کی نیت سے یا صرف پندرہ شعبان کو اس نیت سے روزہ رکھ لے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شعبان میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے، میں کثرت سے تو روزہ نہیں رکھ سکتا، کم از کم ایک روزہ تو رکھ لوں تو امید ہے کہ اسے بھی سنت پر عمل کا ثواب مل جائے گا، بشرطیکہ خاص پندرہ شعبان کے روزے کی سنیت کا اعتقاد نہ ہو۔
١) إذا كانت ليلةُ النصفِ من شعبانَ فقوموا ليلَها وصوموا نهارَها فإنَّ اللهَ تعالى ينزلُ فيها لغروبِ الشمسِ إلى سماءِ الدنيا فيقول ألا مُستغفرٍ فأغفرَ له ألا تائبٍ فأتوبَ عليه ألا مُبتلًى فأُعافِيَه ألا مُسترزِقٍ فأَرزقَه ألا كذا ألا كذا حتى يطلعَ الفجرُ.
الراوي: علي بن أبي طالب
المحدث: المزي
المصدر: تهذيب الكمال
الصفحة أو الرقم: 21/79
خلاصة حكم المحدث: [فيه] أبو بكر محمد بن عبد الله بن أبي سبرة قال أحمد بن حنبل يضع الحديث وقال يحيى بن معين ضعيف الحديث وقال البخاري وابن المديني ضعيف
التخريج : أخرجه ابن ماجه (1388)، والفاكهي في ((أخبار مكة)) (1837)
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفْطِرُ أَيَّامَ الْبِيضِ فِي حَضَرٍ وَلَا سَفَرٍ۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر 2345)
٣) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا قالت: ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في شہر أکثر صیاماً منہ في شعبان کان یصومہ إلا قلیلاً؛ بل کان یصومہ کلہ۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۵۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شعبان المعظم 1440
آپ نے علم میں اضافہ کیا اللہ آپ کے علم میں اضافہ کرے اور آپ کو موت کے وقت کلمہ طیبہ نصیب فرمائے ۔ آمین
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللّہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںJazakallah
حذف کریںJazak allah 👍
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںحضرت! ماشااللہ اللہ ہم آپ کے مسائل و فتاویٰ سے کافی فیضیاب ہوتے ہیں ، لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آپ کے بارے میں نہیں جانتے ہیں آپ کا تعارف کیا ہے .؟؟ آپ کی مشغولیات کیا ہیں اور کہاں خدمت انجام دے رہے ہیں ۔
بندہ: محمد وسیم سہارنپوری، متعلم دارالعلوم دیوبند
نیچے ہمارا تعارف موجود ہے۔
حذف کریںhttps://www.blogger.com/profile/09578133454253484782
حذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا:
جواب دیںحذف کریں