جمعرات، 21 مارچ، 2019

غیرمسلموں کے تہوار پر انہیں مبارکباد دینے کا حکم

*غیرمسلموں کے تہوار پر انہیں مبارکباد دینے کا حکم*

سوال :

غیرمسلم جن سے ہمارے کاروباری تعلقات ہیں، وہ لوگ ہمارے تہواروں کی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا ہمارا ان کو ان کے تہوار پر مبارکباد دینا صحیح ہے یا نہیں؟ اور کچھ مسلمان اپنے اسٹیٹس پر ہپی ہولی یا دیوالی لکھتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟
(المستفتی : محمد شاہد/مولانا رافع الدین، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیر قوموں کا تہوار ان کے مشرکانہ عقائد پر مبنی ہوتے ہیں، چنانچہ ان کے تہواروں کی مبارکباد دینے میں انکے عقائد اور نظریات کی تائید پائی جاتی ہے، اس لیے اسلام کے ماننے والوں کا دیوالی، دسہرہ، گنپتی، ہولی، پولا وغیرہ سمیت دیگر تہواروں پر غیرمسلموں کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے، اگر وہ ہمارے تہواروں کی مبارکباد دیں تب بھی ہمارے لیے ان کے تہواروں پر مبارکباد دینا جائز نہیں۔ ہمارے یہاں ہر مسئلہ کے اصول وضوابط مقرر ہیں، جن کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ سامنے والا جو کرے ہم بھی وہی کرنے لگیں۔ اگر وہ ہماری مساجد میں آئیں اور نماز پڑھیں تو کیا معاذ اللہ ہم بھی مندر جانے لگیں گے؟ اس سوال کے جواب میں دین کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی قطعاً انکار کرے گا۔ لہٰذا اس موقع پر یہی کہا جائے گا کہ ان کے لیے ان کا دین ہمارے لیے ہمارا دین۔

واٹس ایپ پر Happy Holi، Diwali, pola وغیرہ کا اسٹیٹس رکھنا بھی مبارکباد دینے میں شامل ہے، چنانچہ اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ مبارکباد دینے والے مسلمان کے متعلق فتاوی تاتارخانیہ میں کفر کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے، لہٰذا اگر کسی نے ایسا کرلیا ہے تو اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

اسی طرح اگر وہ خود سے اپنے تہواروں کی مبارکباد دیں تب بھی جواباً مبارکبادی دینا درست نہیں۔ اس وقت اوکے یا تھینکس وغیرہ کہہ دیا جائے۔ یا اللہ آپ کو اچھا رکھے، خوش رکھے وغیرہ کہہ سکتے ہیں۔

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم : خوب رسمے نہادہ اند، أو قال : ’نیک آئیں نہادہ اند‘ یخاف علیہ الکفر۔ (الفتاوی التاتارخانیة : ۷/ ۳۴۸، مکتبہ زکریا دیوبند)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
13 رجب المرجب 1440

9 تبصرے: