بدھ، 6 مارچ، 2019

فیشن ایبل ملبوسات و ہیئر اسٹائل کا بڑھتا ہوا رجحان* *ایک لمحۂ فکر*

*فیشن ایبل ملبوسات و ہیئر اسٹائل کا بڑھتا ہوا رجحان*

                        *ایک لمحۂ فکر*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام! ہمارے معاشرے کے بعض لااُبالی دین سے دور نوجوانوں کو عجیب و غریب حلیہ میں دیکھتا ہوں تو صادق و مصدوق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ پیشین گوئی ذہن میں گردش کرنے لگتی ہے جو بخاری و مسلم شریف میں مذکور ہے ۔
حضرت ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یقیناً آنے والے زمانوں میں تم بالشت، بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ان لوگوں کے طور وطریق کو اختیار کرو گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ (جسے ہمارے شہر میں گھوڑپڑ بھی کہتے ہیں) بل میں بیٹھیں گے (جو بہت تنگ اور برا ہوتا ہے) تو تم اس میں بھی ان کی پیروی کرو گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! وہ لوگ کہ جو پہلے گزر چکے ہیں اور جن کے طور طریقوں کو ہم اختیار کریں گے کیا وہ یہود ونصاری ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا اگر وہ یہود ونصاری نہیں ہیں تو اور کون ہیں؟ یعنی تم سے پہلے گزرے ہوئے جن لوگوں کی طرف میں اشارہ کیا ہے ان سے مراد یہود ونصاری ہی ہیں۔

عجیب وغریب حلیہ سے مراد نوجوانوں کے وہ ملبوسات ہیں جو غیرشرعی ہونے کے ساتھ خلافِ عقل، غیرسنجیدہ اور انتہائی بھونڈے نظر آتے ہیں، ارے بھئی یہ بھی کوئی تُک ہے کہ اچھے بھلے کپڑوں کو پھاڑ دیا جائے اور اس کے بعد پہنا جائے؟ اور اسے فیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ چھوٹی چُست شرٹ اور لمبی چُست پینٹ جس کا ٹخنوں کے نیچے ہونا لازمی ہوتا ہے، جبکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔" از قسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ)  کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ پھر اگر اسی حالت میں نماز پڑھ لی جائے تو نماز بھی مکروہ ہوتی ہے، لہٰذا ہمیشہ پاجامہ ٹخنوں کے اوپر پہننا چاہیے، لیکن اگر کبھی ایسی نوبت آجائے تو پائینچوں کو ٹخنوں سے اوپر موڑ کر نماز پڑھی جائے، تاکہ کراہت ایک حد تک زائل ہوجائے۔ اسی طرح فیشن زدہ پھٹی اور چھوٹی شرٹ اور پینٹ خوب نیچے سے پہننے کی وجہ سے بحالت نماز رکوع سجدہ وغیرہ میں ستر کا کچھ حصہ کھل جاتا ہے، اب ایسی حالت میں نماز کا کیا حکم ہوگا؟ چنانچہ اس مسئلے کو بھی واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ لوگوں میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے۔

نماز میں مرد کو بدن کے درج ذیل آٹھ اعضاء کا چھپانا لازم ہے :
(۱) پیشاب کا مقام اور اس کے اردگرد (۲) خصیتین اور اس کے ارد گرد (۳) پائخانہ کا مقام اور اس کے آس پاس (۴-۵) دونوں کولہے (۶-۷) دونوں رانیں گھٹنے سمیت (۸) ناف سے لے کر زیر ناف بالوں اور ان کے مقابل میں  کوکھ پیٹ اور پیٹھ کا حصہ۔

أعضاء عورۃ الرجل ثمانیۃ : الأول: الذکر وما حولہ۔ الثانی: الأنثیان وما حولہما۔ الثالث: الدبر وماحولہ۔ الرابع والخامس: الإلیتان۔ السادس والسابع: الفخذان مع الرکبتین۔ الثامن: ما بین السرۃ إلی العانۃ مع ما یحاذی ذٰلک من الجنبین والظہر والبطن۔ (شامی بیروت۲؍ ۷۵)

ناف سے لے کر پیڑو تک اور اس کے بالمقابل پیٹ، پیٹھ اور دونوں پہلو سب ملاکر ایک ستر ہیں، پس اگر کسی مرد نمازی کا حالت نماز میں اس ستر کا چوتھائی حصہ کھل گیا اور تین بار سبحان اللہ کہنے کے بقدر کھلا رہا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، اور غالب گمان یہی ہے کہ مذکورہ لباس پہننے کی وجہ سے جن لوگوں کا ستر کھل جاتا ہے ان میں تمام لوگوں کا تو نہیں، البتہ اکثریت کا اتنی مقدار میں ستر کھل جاتا ہے کہ ان کی نماز فاسد ہوجاتی ہے، اب ایک غلط فہمی بعض لوگوں کو یہ ہے کہ نماز میں کسی کا ستر دِکھ جائے تو ان کی نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر کسی نمازی کی دوسرے نمازی کے کھلے ہوئے ستر پر نظر پڑگئی تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی، اگرچہ وہ تین بار سبحان اللہ کہنے کے بقدر یا اس سے زیادہ نظر ڈالے رکھے، البتہ بالقصد نظر ڈالنے یا نظر جمائے رکھنے کی صورت میں وہ گنہگار ہوگا اور ستر کھولنے والا بھی گنہ گار ہوگا اور سہواً نظر پڑنے کی صورت میں صرف ستر کُھلا رکھنے والا یا اس میں بے احتیاطی کرنے والا گنہ گار ہوگا۔

ویمنع حتی انعقادہا کشف ربع عضو قدر أداء رکن… وذلک قدر ثلث تسبیحات۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، شروط الصلاۃ، زکریا ۲/۸۱-۸۲، کراچي ۱/۴۰۸)

*بالوں سے متعلق شرعی حکم*

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے موئے مبارک کبھی نصف کان تک کبھی کان کی لَو تک ہوتے اور جب بڑھ جاتے تو شانۂ مبارک سے چُھو جاتے، اس لئے پورے سرپر بال رکھے جائیں یا سب کے سب منڈا دیئے جائیں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کا معمول تھا۔ یا مساوی طور پر کٹوائے جائیں، کچھ حصہ منڈانا اور کچھ حصہ میں بال رکھنا، یا چھوٹے بڑے اتار چڑھاؤ بال رکھنا جو آج کل فیشن ہے اور انگریزی بال سے موسوم ہے، جس سے نصاریٰ فساق اور فجار کی ہئیت کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے، اور احادیث میں بھی ایسے بال رکھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے نبی ﷺ کو قزع سے منع کرتے ہوئے سنا۔ نافع رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قزع سے کیا مراد ہے کہا کہ بچے کے سر کا کچھ حصہ تو مونڈ دیا جائے اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ تو مونڈا گیا تھا اور کچھ حصہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس (طرح کرنے) سے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا یا تو پورے سر کو مونڈو یا پورے سر کو چھوڑ دو۔(مسلم)

اب اگر ہم ہمارے نوجوانوں کے بالوں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ نوجوانوں کی اکثریت اسی ممنوعہ طرز کے بال رکھنا پسند کرتی ہے، اور دن بدن اس فیشن میں ترقی ہورہی ہے، اور ایسے عجیب وغریب بال رکھے جارہے ہیں کہ عقل بھی ان پر ماتم کرتی ہے۔ اچھے بھلے کالے بالوں کو کیمیکل لگا لگاکر لال یا بھورا کرلیا جاتا ہے، یا پھر بعض جگہوں پر سفید کرلیا جاتا ہے، اور اس گناہ میں ان کے معاون وہ نائی حضرات بھی ہیں جو چند پیسوں کی خاطر اپنی آخرت برباد کررہے ہیں، اسی طرح آج کل بالوں کو جَلاکر ترتیب دیا جارہا ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کے بدن کا ہر حصہ محترم و مکرم ہے، جسے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی جلانا شرعاً ناجائز ہے، اس لئے بالوں کو جَلاکر ترتیب دینا بھی جائز نہیں ہے، نائی حضرات کو اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ رزق دینے والی ذات اللہ تعالٰی کی ہے، وہ تو کافروں کو بھی رزق دیتا ہے تو اپنوں کو کیسے چھوڑ دے گا؟ لہٰذا اس کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے روزی کمائی جائے، اس صورت میں وقتی تنگی کا امکان ضرور ہے، لیکن ہمیشہ ہمیش کی آخرت میں راحت و آرام کا سامان ہوجائے تو یہ سودا انتہائی سستا کہلائے گا۔

محترم قارئین! زیر نظر مضمون میں سب سے پہلی حدیث شریف کی روشنی میں اگر مذکورہ برائیوں کو دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیشین گوئی بالکل سچ ثابت ہورہی ہے، کیونکہ یہ فیشن بلاشبہ مغربی تہذیب اور یہود و نصاریٰ کی دین ہیں، جو خلافِ عقل اور سراسر حماقت پر مبنی ہیں، جنہیں کوئی بھی سلیم الفطرت انسان قطعاً پسند نہیں کرے گا، لیکن ہمارے بعض نوجوان اسے ہاتھوں ہاتھ لئے ہوئے ہیں۔ ایسے فیشن کو گوہ کی بل میں بیٹھنے سے تعبیر کرنے میں کیا تردد ہوسکتا ہے؟ اسی طرح متعدد احادیث میں یہ مضمون بھی وارد ہوا ہے کہ جو شخص جس قوم کی مشابہت اور ان کے جیسے طور طریقے اختیار کرتا ہے، بروز قیامت اس کا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا۔ لہٰذا نوجوانوں کو ان وعیدوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسے فیشن سے باز رہنا چاہیے، اسی طرح ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ماتحت نوجوانوں کو حدیث شریف میں مذکور ایک بُرائی کی پیشین گوئی کا مصداق بننے سے بچائیں، اور انہیں سنتوں پر عمل کرنے کی ترغیب دیں۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو سنت و شریعت کے مطابق زندگی گذارنے اور کما حقہ اس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

1 تبصرہ: