*ایک زمانہ کے بعد مہر کی ادائیگی کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مندرجہ ذیل مسٔلہ کے متعلق ذید کا نکاح اج سے ٢٠ سال قبل ہوا تھا۔ زید کی بیوی کا مہر٧٠٠(سات سو روپے) طے ہوا تھا جو اس وقت ادا نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا زید اگر آج اپنی بیوی کا مہر ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے موجودہ وقت میں کتنی رقم ادا کرنا چاہیے؟ حوالہ کے ساتھ جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : یعقوب بھائی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہر کی رقم چونکہ شوہر پر قرض ہوتی ہے، اور قرض کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس صورت میں لیا گیا ہے اسی کا اعتبار کرتے ہوئے ادا کیا جائے گا، مثلاً سونا چاندی کی صورت میں قرض لیا گیا ہے تو ادائیگی کے وقت اتنی ہی مقدار سونا چاندی یا اس کی قیمت کا ادا کرنا ضروری ہے، اور روپے کی شکل میں قرض لیا گیا ہے تو اتنی ہی مقدار میں روپے کا واپس کرنا ضروری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چونکہ سات سو روپے مہر طے کی گئی تھی تو بیس سال بعد بھی زید پر سات سو روپیہ ہی ادا کرنا واجب ہے۔ البتہ اگر زید اپنی طرف سے اس میں اضافہ کرنا چاہے تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا مستحسن ہے۔
استقرض من الفلوس الرائجۃ فعلیہ مثلہا کاسدۃ ولا یغرم قیمتہا۔ قال الشامي: أي إذا ہلک وإلا فیرد عینہا اتفاقاً۔ (درمختار مع الشامي، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض، ۷/۳۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رجب المرجب 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں