پیر، 11 مارچ، 2019

سڑکوں پر لاؤڈ-اسپیکر کے ذریعے مسجد و مدرسے کا چندہ کرنا

*سڑکوں پر لاؤڈ-اسپیکر کے ذریعے مسجد و مدرسے کا چندہ کرنا*

سوال :

کچھ سالوں قبل مالیگاؤں میں جگہ جگہ چوراہوں پر، چار چاک کی گاڑیوں پر لاؤڈ-اسپیکر لگا کر گلی گلی مسجدوں اور مدرسوں کے لئے چندہ کیا جاتا تھا جسے باقاعدہ ایک مہم چلا کر بند کروایا گیا، لیکن کچھ دنوں سے پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ کسی بھی چوراہے پر ایک کھٹیا اور لاؤڈ-اسپیکر لگا کر دن بھر پر زور آواز میں چندہ  مانگا جا رہا ہے۔ اس بارے میں ہاسپٹلس اور مصروف شاہراہوں کی بھی رعایت نہیں کی جاتی اور چھوٹے چھوٹے بچے تھیلی لے کر سڑک کے بیچ میں لوگوں سے چندہ وصول کرتے ہیں جبک ٹریفک بھی جاری رہتا ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس طرح مساجد کے لئے چندہ کرنا جائز ہے؟ جبکہ ان کی تیز چیخ پکار سے پورا دن اطراف کے لوگ سخت ذہنی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
(المستفتی : خالد جلال، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد و مدرسہ کے بنانے اور اس کے اخراجات کی تکمیل کے سلسلے میں تعاون کرنا یا کروانا بڑا نیک عمل ہے، ہر مسلمان بقدر استطاعت اس میں حصہ لینا اپنی سعادت سمجھتا ہے، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چندے کی وصولی میں دن بدن بے احتیاطی اور شرعی حدود و قیود سے تجاوز پایا جارہا ہے، ایسے حالات میں آپ کا سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے جس پر شرعی رہنمائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ مسجد و مدرسے کا کسی بھی درجہ میں تعاون کرنا ہر مسلمان اپنی سعادت سمجھتا ہے، لہٰذا نوجوانوں کے اس جذبہ کا فائدہ اٹھاکر بعض مساجد ومدارس کے ذمہ داروں نے علماء کرام سے مشورہ کئے بغیر ان نوجوانوں کو چندے کے اسٹال مع لاؤڈ-اسپیکر پر بٹھا دیا، یا پھر ان نوجوانوں نے ہی لاعلمی میں اس طریقہ کار کو اختیار کرلیا ہے۔

چوک چوراہوں پر چندے کے اسٹال جن میں لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال لازمی ہوتا ہے اگر اس کا شریعت مطہرہ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں متعدد قباحتیں موجود ہیں، جن میں سرفہرست ایذائے مسلم کا گناہ لازماً پایا جاتا ہے، ظاہر ہے جب دن دن بھر کان پھاڑنے والے لاؤڈ-اسپیکر کے ذریعے مسلسل حمد، نعت اور دیگر اشعار پڑھے جائیں اور چندے کی اپیل کی جائے گی تو کوئی کب تک بشاشت کو باقی رکھ سکتا ہے؟ بلاشبہ ہر انسان کو اس سے تکلیف ہوگی، بالخصوص اطراف کے گھروں اور مساجد میں نماز، تلاوت، اور ذکر میں مشغول مسلمانوں اور مریضوں کو سخت ذہنی اذیت سے گذرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس طرح چندہ کرنے والے حضرات یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسجد و مدرسہ کا چندہ کرنا بلاشبہ اجر عظیم ہے لیکن اس میں اس بات  کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے لوگو‌ں کو تکلیف نہ ہو، اس لئے بغیر لاؤڈ-اسپیکر کے چندہ کیا جائے اس صورت میں جتنا چندہ جمع ہوجائے اسی پر اکتفاء کیا جائے، اس سے زیادہ کے آپ مکلف نہیں ہیں، زیادہ چندے کی امید پر شریعت کے دیگر اہم احکام کی پامالی قطعاً جائز نہیں ہے، ورنہ آپ کی نیکی برباد گناہ لازم آئے گا۔ بطور خاص یہ بھی ملحوظ رہے کہ ذمہ داران بلاضرورت اور معقول انتظام کے بغیر تعمیری کام شروع ہی نہ کریں۔

اسی طرح بچوں کے ذریعے یہ کام کرانے کی صورت میں ایک قباحت تو یہ ہے کہ بچے ناسمجھی کی وجہ سے کسی بھی راہ گیر سے لگ لپٹ کر چندے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے راہ گیر شرما حضوری میں چندہ دے دیتا ہے، اس طرح چندہ وصول کرنا شرعاً درست نہیں ہے، دوسرے یہ کہ بعض بچے تربیت کی کمی اور شعور کی ناپختگی کی وجہ سے چندے کی رقم میں خیانت بھی کر بیٹھتے ہیں جس کا مشاہدہ بھی ہے۔ یا پھر ٹریفک کی وجہ سے کسی سواری کی زد میں آکر خدانخواستہ ان کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا حتی الامکان بچوں سے مذکورہ کام لینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اخیر میں مخیران قوم سے بھی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ از خود تعاون کردیا کریں تاکہ اس طرح چندہ کرنے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔

أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ۔ (شامی : ۱؍۶۶۰)

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم.(سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵، کتاب الإیمان و شرائعہ،باب صفۃ المؤمن)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رجب المرجب 1440

10 تبصرے:

  1. چندہ کرنے کے لیے کبھی کبھی ایسے جاہل لوگوں کو بیٹھایا جاتا ہے جو بنا کسی تحقیق کے جذبات میں آکر ایسی باتیں
    حدیث بتا کر بیان کرتے جو نہ حدیثوں میں ہے نہ کتابوں میں اور کبھی کسی عالم کی آواز میں چندہ مانگتے ہیں کبھی کسی فلمی اداکار کی آواز میں یہ کمیشن خوروں کو بند کرنے چاہئے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بالکل صحیح بات ہے

      باقاعدہ کچھ لوگوں کا پیشہ بن گیا ہے، مختلف انداز میں جذباتی باتیں کرکے عوام بالخصوص خواتین کو راغب کیا جاتا ہے۔

      حذف کریں
    2. عوام کو اب خود اس پر روک لگانے کی ضرورت ہے ۔

      حذف کریں
  2. ماشاءاللہ اوپر کا سوال وجواب بہت ہی اہمیت کا حامل ہے چندہ مانگنے کے تمام اصول وضوابط بالاۓ طاق رکھنے کی وجہ سے مضافات اور دیہات کے لوگ بھی اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں موجودہ صورتحال کو صرف ہمارے علمائے کرام ہی بدل سکتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. حافظ سعید احمد ملی ابن عبدالرشید

    جواب دیںحذف کریں
  4. عوام اگر سختی سے باز پرس کرنے لگ جائیں گے تو یہ چندہ خوروں کی دوکان بند ہوجاے گی

    جواب دیںحذف کریں
  5. مالیگاٶں کی ایک مسجد کا ہر جمعہ کو چندہ روڈ پر لاٶڈ اسپیکر لگا کرکیا جاتا ہے جس شخص کو اناٶنسری کے لیے بیٹھایا جاتا ہے وہ جاہل قسم کا ہے جو اول فول بکتا ہے اور دوسری بات ہر ہفتہ ہونے والا چندہ مینارے میں لگایا جاتا ہے جس کی چنداں بھی ضرورت نہیں لیکن پانچ لاکھ سے زاٸد رقم لگاٸی جا چکی ہے اور ہر ہفتہ وہی چندہ کا دھندہ ۔۔۔۔۔۔۔راہگیروں کو اہل محلہ کو ہر کسی کو تکلیف ہوتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. ماشاءاللہ درست فرمایا آپ نے۔ آپ کی بات سے متفق ہوں۔ اللہ جزائے خیر دے۔ آمین یا رب العالمین۔ دعا کی درخواست

    جواب دیںحذف کریں
  7. سلامت آباد چوک پر اگر اپ اواز کم کر نے کو بولے تو یہ لوگ جھگڑا کرنے لگتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ان کو نرمی کے ساتھ مسئلہ بتانا چاہیے۔ امید ہے کہ مان جائیں

      حذف کریں