*انٹرنیٹ وائی فائی کنکشن فراہم کرنے اور اس کی آمدنی کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب! سوال یہ تھا کہ wifi کی سروس دینا کیسا ہے؟ مطلب زید wifi لگاتا ہے اور گراہک کی ڈیمانڈ کے حساب سے اُس پر ماہانہ ریچارج کرتا ہے اور اسکا پیسہ لے لیتا ہے۔ اب دل میں سوال یہ آتا ہے کہ لوگ اسکا اچھا استعمال اور کاروبار میں مدد تو لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ اس کا غلط استعمال اور فحاشی کی چیزیں دیکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔ تو اس میں زید گنہگار تو نہیں ہوگا؟ اور اسکی آمدنی کیسی ہوگی؟
فحاشی کی سائٹس بلاک بھی کی جا سکتی ہے۔ تو اس شرط پر / یا اس شرط کے بغیر سروس دینا کیسا رہیگا؟
(المستفتی : شہزاد عثمانی، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : انٹرنیٹ میں اپنی ذات کے اعتبار سے شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اس کا پورا دارومدار استعمال کرنے والے پر ہے، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی بندوق کا جائز استعمال کرتے ہوئے اس سے کسی حلال جانور کا شکار کرے اور اپنی بھوک مٹائے، یا پھر اس کا افضل استعمال کرتے ہوئے کسی دشمنِ دین کو واصل جہنم کردے اور اجر و ثواب کا مستحق ہو یا پھر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی کا ناحق قتل کردے۔ اسی طرح انٹرنیٹ کا استعمال اگر کوئی اپنی جائز تجارت میں کرے تو یہ اس کے لئے شرعاً درست ہے، اگر کوئی اس کا استعمال باطل کی سازشوں کو ملیامیٹ کرنے کے لیے کرے اور اسلام کی صحیح شکل و صورت لوگوں کے سامنے پیش کرے تو ایسا شخص عنداللہ اجر عظیم کا مستحق ہوگا، اگر کوئی اس کا استعمال لوگوں کو دھوکہ دینے، فحاشی اور عریانیت کے مناظر دیکھنے کے لیے کرے تو وہ گناہ گار ہوگا۔
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ کا استعمال صحیح اور غلط دونوں مقاصد کے لئے ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں وائی فائی سروس دینا اور گراہکوں کے مطالبے پر ریچارج کرنا جائز ہے، اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے، اب اگر کوئی انٹرنیٹ کنکشن لینے کے بعد اس کا غلط استعمال کرے تو اس کا گناہ خود استعمال کرنے والے پر ہوگا، انٹرنیٹ وائی فائی سروس فراہم کرنے والا اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
اگر فحش ویب سائٹس بلاک کی جاسکتی ہوں تو بہتر ہے کہ اسے بلاک کردیا جائے، لیکن اگر بلاک نہیں بھی کیا گیا تب بھی اس کا گناہ استعمال کرنے والے پر ہوگا، البتہ ایسی ویب سائٹس کے چلانے پر اگر خصوصی چارج لیا جائے تو یہ ناجائز اور حرام ہوگا، اور اس کی فیس بھی حرام ہوگی۔
الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على عدم الإباحة و هو مذهب الشافعي. (الاشباه و النظائر، ٢٩٩)
المختار أن الأصل في الإباحة عند جمهور أصحابنا۔ (غمز عيون البصائر على الاشباه و النظائر ص ٢٠٨ تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة)
لما فیہ من الإعانۃ علی مالا یجوز، وکل ما أدی إلی ما لا یجوز لایجوز۔ (الدر المختار مع الشامي، الحظر والإباحۃ / فصل في اللبس ۹؍۵۱۸)
إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضیف الحکم إلی المباشر۔ (الأشباہ والنظائر ۵۰۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الآخر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں