*سود حاصل کرنے کے لیے بینک یا اور کہیں پیسے جمع کرنا*
سوال :
بکر کی ایک شاپ ہے جسکا وانکم ٹیکس اور سیل ٹیکس ہر سال بھرتا ہے اور بکر نے لون پر ایک گاڑی بھی لی ہے اسکا بھی انٹریس بھرتا ہے اور بکر کو انکم ٹیکس والوں نے ایک اسکیم دی ہے کہ تم ہرسال 30 ہزار روپے بھرو دس سال تک جو تقریباً تین لاکھ روپے ہوتے ہیں تو تم کو دس سال کے بعد سات لاکھ روپے ملیں گے اور یہ ملنا کنفرم ہے۔ اب کیا بکر کو جو زائد رقم چار لاکھ دس سال بعد ملنے والی ہے وہ رقم جو ہر سال انکم ٹیکس اور انٹریس بھرتا ہے اس میں بھرسکتا ہے؟
(المستفتی : محمد محسن، کوپرگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں قسطوں میں تین لاکھ جمع کرنے پر دس سال کے بعد بکر کو جو چار لاکھ کی رقم زائد ملنے والی ہے وہ صریح سود ہے اور سود حاصل کرنے کے لیے بینک یا اور کہیں پیسے رکھنا یا جمع کرانا قطعاً ناجائز اور حرام ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، لکھنے والے، اس کے گواہان اور اس کا واسطہ بننے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔
لہٰذا بکر کا یہ پہلا ہی عمل جائز ہی نہیں ہے تو بعد کے اعمال کیسے درست ہوسکتے ہیں؟ لہٰذا بکر کو چاہیے کہ اپنے اس فاسد خیال کو بالکلیہ ترک کردے، اور حلال روزی کے لیے جدوجہد کرے۔
اسی طرح بکر کا سودی قرض پر گاڑی لینا بھی جائز نہیں تھا، لیکن اگر اس نے لے لیا ہے تو اب اس پر توبہ واستغفار کرے، اور اس کا سود حلال مال سے ادا کرے گا، سودی رقم سے اس کی ادائیگی جائز نہیں ہے۔
عن جابرؓ، قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آکل الربوا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔(مسلم شریف، با ب لعن آکل الربا، ومؤکلہ، النسخۃ الہندیۃ، ۲/۲۷، رقم:۱۵۹۸)
لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي : ۶؍۳۸۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 جمادی الآخر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں