✍ محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو اپنی معرفت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے، اسلام انسان کو بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے، ایسی بامقصد زندگی جس کی بنیاد ہر وقت اللہ کی رضا کی طلب و چاہت ہو، آخرت کے بنانے کی فکر ہو اور لہوولعب سے احتراز ہو، یہی زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے، اور جس زندگی کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و لا پرواہی ہو وہ کفار و مشرکین کا شعار ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں : وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔
کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (سورۃ المومنون، آیت : 03)
لہٰذا شرعی نقطہ نظر سے ہر وہ کام، لائقِ تعریف اور مستحسن ہوگا جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے، اسی کے ساتھ ہر اس کام کی بھی اجازت ہے، جس میں دنیا و آخرت کا یقینی فائدہ ہو، یا کم از کم دنیا وآخرت کا نقصان نہ ہو، چنانچہ جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے مسلمان فکرِ آخرت سے بے نیاز اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیوں کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں یا پھر ایسے لغو و فضول کاموں میں ملوث ہیں جن سے دین کا فائدہ ہے نا دنیا کا اور ان کاموں میں ایسے محو ہوگئے ہیں کہ ان سے گناہ بھی سرزد ہورہے ہیں لیکن انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہے، زیرِ نظر مضمون میں ایسے ہی ایک لغو اور فضول کام جو آگے بڑھ کر گناہ بلکہ کبیرہ گناہ اور اب تو یہ ناجائز کمائی کا ذریعہ بھی بن گیا ہے، مراد موبائیل گیمس بالخصوص PUBG نامی گیم ہے جس کا شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا اور اس کی شرعی حیثیت کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
محترم قارئین ! موجودہ دور میں موبائیل کے ذریعے جتنی برائیاں عام ہوئی ہیں ان کا احاطہ ہی مشکل ہے، چہ جائیکہ ان کا مکمل طور پر سدباب ہوسکے، بہرحال ہمیں ہے حکمِ اذاں کے تحت نہی عن المنکر کرتے رہنا چاہیے ہدایت دینے والی ذات اللہ تعالٰی کی ہے۔ ہاں تو میں یہ بتا رہا تھا نت نئے فتنوں کے ساتھ یہ آلہ عوام و خواص کو آزمائے ہوئے ہے، انہیں میں سے ایک فتنہ گیم کا فتنہ ہے، شریعت نے کھیل سے مطلقاً منع نہیں فرمایا ہے بلکہ چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے۔
1) کھیل میں ستر کے حدود کی رعایت کی جائے۔
2) کھیل میں ایسا مصروف نہ ہو کہ دینی فرائض سے بھی غفلت ہوجائے۔
3) ایسی دو طرفہ شرطیں نہ ہوں کہ جس سے قمار کی صورت پیدا ہوجائے۔
4) پھر ان میں وہ کھیل جس سے جسمانی ورزش و چستی پیدا ہو، تو زیادہ پسندیدہ ہے، جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑ سواری، دوڑ اور تیر اندازی کو پسند فرمایا، جو جسم میں چستی و توانائی کا باعث بنتے ہیں۔ (امداد المفتیین ص: ۱۰۰۲، جدید فقہی مسائل۱؍۲۵۴)
چنانچہ جسم کی ورزش اور بدن کی تندرستی بڑھانے کے لئے بطور ورزش کوئی بھی ایسا کھیل جائز ہے، جو شریعت کے احکامات کو پامال نہ کرتا ہو اور اس کھیل کو کھیلنے والوں کیلئے ستر پوشی اور حدود کی رعایت رکھ کر تندرستی اور ورزش کی غرض سے کرکٹ، فٹ بال، وٹینس بھی کھیلنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کھیل میں نماز باجماعت سے اور اپنی دینی، دنیاوی ومعاشی ذمہ داریوں سے غفلت نہ ہو۔
مذکورہ بالا شرائط کی روشنی میں اگر ہم موبائیل میں کھیلے جانے والے گیموں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ گیمس بالخصوص پَب جی اس پر بالکل بھی پورا نہیں اترتا ہے، کیونکہ معتبر ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق اس گیم کے کھیلنے میں کئی کئی گھنٹے صَرف ہورہے ہیں، چونکہ اس کھیل میں متعدد افراد پر مشتمل ایک ٹیم ہوتی ہے اور یہ ایک دوسرے سے بذریعہ انٹرنیٹ رابطے میں رہتے ہیں اور کھیلتے وقت ایک دوسرے کو عموماً گالیاں دے کر مخاطب کیا جاتا ہے اور گیم میں ٹارگٹ کو مارنے کے لیے کہا جاتا ہے، کھیلنے والے اس میں ایسا منہمک اور محو رہتے ہیں کہ وہ دنیا و مافیہا سے بالکل لاتعلق ہوجاتے ہیں، جو بلاشبہ فرائض اور واجبات کے ترک کا ایک اہم سبب ہے، مثلاً نمازوں سے غفلت، والدین اور بڑوں کے حکموں کی پامالی، وغیرہ ۔ اسی کے ساتھ اس کے متعدد طبی نقصانات بھی ہیں جو اس کے ماہرین زیادہ بہتر انداز میں بیان کرسکتے ہیں، اس کھیل میں لگنے والے دس بارہ سال کی عمر کے بچوں سے لے کر چالیس سالہ ادھیڑ عمر کے افراد بھی شامل ہیں، بچے اس کھیل میں لگ کر اپنا مستقبل برباد کررہے ہیں، اپنا تعلیمی نقصان کررہے ہیں، ظاہر ہے یہ اتنا بڑا نقصان ہے کہ اگر اس پر فوری قدغن نہیں لگایا گیا تو مستقبل میں مسلمان تعلیم کے میدان میں بالکل پچھڑ کر رہ جائیں گے، ویسے بھی تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی حالت انتہائی دِگرگوں ہے، رہی سہی کسر اس طرح کے کھیل پوری کردیں گے۔ اسی طرح بڑی عمر کے افراد اس کی وجہ سے اپنے سونے سے زیادہ قیمتی اوقات کو ضائع کررہے ہیں، اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برت رہے ہیں، اور سب سے بڑھ کر اپنی آخرت کی بربادی کا سامان کررہے ہیں اور انہیں اس بات احساس ہی نہیں ہے، اور اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پب جی جیسے گیموں کو کھیلنے اور اس میں آگے بڑھنے نیز کھلاڑی کو مختلف ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے حلال کمائی کے ہزاروں روپے بے دریغ خرچ کیے جارہے ہیں، آئی ڈی کی خرید وفروخت ہورہی جو بلاشبہ ناجائز ہے، کیونکہ آئی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے خرید و فروخت کیا جائے۔
اگر کوئی اس طرح کے کھیلوں کے لیے فرصت کا عذر پیش کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایک سچے مسلمان کے لیے کوئی بھی وقت فرصت کا اور فضول نہیں ہے جو اس طرح کے کاموں میں ضائع کیا جائے، حدیث شریف میں آتا ہے : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں جانے کے بعد اہل جنت کو دنیا کی کسی چیز کا بھی افسوس نہ ہوگا بجز اس گھڑی کے جو دنیا میں اللہ کے ذکر کے بغیر گزر گئی ہو۔ (طبرانی و بیہقی)
ابن ابی الدنیا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابن آدم کی جو گھڑی اس حال میں گزر گئی کہ اس میں اس نے اللہ کا ذکر خیر کے ساتھ نہیں کیا تو (یہ گھڑی) اس پر قیامت کے دن حسرت اور افسوس کا باعث بنے گی۔
لہٰذا ایک مسلمان کو ہر وقت اور ہر لمحہ اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ناکہ منکرات اور لغویات میں وقت گذار کر اپنی عاقبت برباد کرنا چاہیے۔
اسی معاملے سے جڑا ہوا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کے گیم کھیلنے کے لئے عام طور پر ایسی ہوٹلوں کا رُخ کیا جاتا ہے جہاں آرام سے اور دیر تلک بیٹھنے کے انتظامات ہوں اور وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر ہو، یہاں ان ہوٹل مالکان کو بھی شرعی حکم بتاتا چلوں جو اپنی چائے کی دوکانوں میں گراہکوں کو لُبھانے کے لیے فری انٹرنیٹ وائی فائی کی سہولت فراہم کئے ہوئے ہیں، بلاشبہ ہوٹل مالکان ان کے گناہ میں معاون و مددگار بن کر خود بھی گناہ گار ہو رہے ہیں، کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ان ہوٹلوں میں بیٹھ کر آپ کے وائی فائی کے ذریعے غیرشرعی امور میں لگی ہوئی ہے، اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان گناہوں کی نحوست آپ کی روزی میں بے برکتی کا سبب بھی بنی ہوئی ہے، لیکن آپ اس کی خطرناکی کوسمجھ نہیں پارہے ہیں۔ لہٰذا ایسے ہوٹل مالکان کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے کہ وہ اپنی ہوٹلوں میں وائی فائی کی فراہمی بند کریں اور اس طرح کی حرکت میں ملوث نوجوانوں کو حکمت سے سمجھا دیں جس کے لیے بلاشبہ آپ اجرِ عظیم کے مستحق ہوں گے، اور شریعت کے مطابق تجارت کریں کیونکہ اسی میں دنیا و آخرت کی خیر مضمر ہے۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ ان برائیوں کی طرف نشاندہی تو کردی گئی لیکن اس کے روکنے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اس وباء میں چونکہ عموماً کم عمر اور نوجوان بچے مبتلا ہیں، جیسا کہ سوشل میڈیا پر وائرل دو تصویروں سے بھی معلوم ہوتا ہے، تو والدین کی شرعاً یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی فکر کریں کیونکہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو موبائیل لے کر دینے اور اس کی طرف سے غفلت برتنے والے یہی والدین ہیں جنہیں مخاطب کرکے اللہ تعالٰی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۔ (سورہ تحریم : 06)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت میں عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی پھر نار جہنم کی ہولناک شدت کا ذکر فرمایا اور آخر میں یہ بھی فرمایا کہ جو اس جہنم کا مستحق ہوگا وہ کسی زور طاقت جتھہ یا خوشامد یا رشوت کے ذریعہ ان فرشتوں کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جو جہنم پر مسلط ہیں جنکا نام زبانیہ ہے۔
لفظ اَهْلِيْكُمْ میں اہل و عیال سب داخل ہیں جن میں بیوی، اولاد، غلام، باندیاں سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر چاکر بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الٰہی کی پابندی کریں) مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل وعیال کو بھی حکم کرو تو یہ عمل انکو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا۔
حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہرشخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لئے کوشش کرے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو کہتا ہے اے میرے بیوی بچو، تمہاری نماز، تمہارا روزہ، تمہاری زکوٰة، تمہارا مسکین، تمہارا یتیم، تمہارے پڑوسی، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اسکے ساتھ جنت میں جمع فرمائیں گے۔ تمہاری نماز، تمہارا روزہ وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا خیال رکھو اس میں غفلت نہ ہونے پائے اور مسکینکم یتیمکم وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کی خوشی اور پابندی سے ادا کرو اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا جس کے اہل و عیال دین سے جاہل وغافل ہوں۔ (روح المعانی/ معارف القرآن)
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ والدین پر ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی اور صالح تربیت کے لئے جدوجہد کریں، اس سے غفلت دنیا و آخرت کے خسارے کا سبب ہوگی۔
دوسرا طبقہ جو اس وباء اور انٹرنیٹ کی برائیوں میں مبتلا ہے وہ بڑی عمر کے افراد ہیں، ان کی اصلاح کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو قرآن کریم میں خیرِامت کے لقب سے ملقب فرمایا ہے، اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچانے ہی کے لئے وجود میں آئی ہے، اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ مخلوقِ خدا کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کا فرض منصبی ہے اور پچھلی سب امتوں سے زیادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل اس امت کے ذریعہ ہوئی، اگرچہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ پچھلی امتوں پربھی عائد تھا، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے، مگر امم سابقہ میں جس طرح دین کے دوسرے شعائر ان کی غفلت کی وجہ سے محو ہوگئے تھے، اسی طرح فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی بالکل متروک ہوگیا تھا، اور اس امت محمدیہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشگوئی ہے کہ " اس امت میں تا قیامت ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم رہے گی۔ (متفق علیہ)
چنانچہ اسی فریضہ کی ادائیگی کے لئے متعدد تحریکیں وجود میں آئیں، لیکن یہ کام صرف جماعتوں کے اور اجتماعی طور پر کرنے کا نہیں ہے بلکہ امت کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں بقدر استطاعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے، جہاں کوئی برائی دیکھے اسے ہاتھوں سے روک دے اگر اس میں فتنہ کا اندیشہ ہوتو زبان سے کہہ دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے، اس سے کم ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے، لہٰذا ہم سب اپنے فرائض و واجبات کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بقدر استطاعت برائیوں کو روکنے کی کوشش بھی کریں، اس لئے کہ یہی وہ فریضہ ہے جس کی برکت سے امت کا وقار اور دبدبہ بحال ہوسکتا ہے، اخیر میں اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ
چمن کے مالی اگر بنالیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی
اللہ تعالٰی ہم سب کی منکرات اور لغویات سے حفاظت فرمائے، کما حقہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی برکت سے امت کے مسائل کو حل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
*وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں