ہفتہ، 9 فروری، 2019

بیٹھے بیٹھے ٹیک لگاکر سونے کا حکم

*بیٹھے بیٹھے ٹیک لگاکر سونے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین مسئلہ ھٰذا کے کہ بہت سارے لوگ دو زانوں (پالتی مار کر)  بیٹھ کر اپنی پیروں پر ہاتھ اور کہنی وغیرہ رکھ کر سو جاتے ہیں،سوال یہ ہے کہ اس طرح سونے سے کیا وضو ٹوٹ جائیگا؟
ٹیک لگا کر سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو اُس ٹیک لگانے کی کی کیا حد ہے؟ یعنی کس حد تک کا ٹیک ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
(المستفتی : عبدالرحمن بھائی، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں مذکورہ طریقے پر سونے میں اگر نیند کے غلبہ کی وجہ سے یہ لوگ گرتے نہیں ہیں بلکہ بیٹھے ہی رہتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان کا وضو نہیں ٹوٹے گا، البتہ اگر نیند کے غلبہ کی وجہ سے گرجائیں اور گرنے کے بعد ان کی آنکھ کھلے تو ان لوگوں کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

اگر بیٹھے بیٹھے دیوار یا تکیہ وغیرہ سے ٹیک لگاکر اس طرح بے خبر سوگیا کہ اگر سہارا ہٹادیا جائے تو گرپڑے تو وضو ٹوٹ جائے گا، اور اگر ایسی بے خبری کی نیند نہیں ہے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔

ولو نام قاعداً یتمایل فسقط، إن انتبہ حین سقط فلا نقض بہ یفتیٰ۔ (درمختار) وفی الشامی : أی عند إصابۃ الأرض بلا فصل، شرح منیہ، أو کذا قبل السقوط أو فی حال السقوط أما لو استقر ثم انتبہ نقض لأنہ وجد النوم مضطجعاً۔ (شامی : ۱؍۲۷۲)

قال المحقق إبن الہمام: ظاہر المذہب عن أبی حنیفۃؒ عدم النقض بہذا الاستناد ما دامت المقعدۃ متمسکۃ للأمن من الخروج، والانتقاض مختار الطحاوی اختارہ المصنف والقدوری لأن مناط النقض الحدث لا عین النوم، فلما خفی بالنوم أو یر الحکم علی ما ینتہض مظنۃ لہ ولذا لم ینقض نوم القائم والراکع والساجد ونقض فی المضطجع لأن المظنۃ منہ ما یتحقق معہ الاسترخاء علی الکمال وہو فی المضطجع لا فیہا وقد وجد فی ہذا النوم من الاستناد إذا لایمسکہ إلا السند، وتمکن المقعدۃ مع غایۃ الاسترخاء لایمنع الخروج إذ قد یکون الدافع قویاً خصوصاً فی زماننا لکثرۃ الأکل فلایمنعہ الامسکۃ الیقظۃ۔ (فتح القدیر ۱؍۴۷-۴۸)

وقال الإمام محمد فی المبسوط عن ابی حنیفۃؒ: وأما إذا نام مضطجعاً أو متکئاً فإن ذٰلک ینقض الوضوء۔ (المبسوط ۱؍۵۸)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 جمادی الآخر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں