*سودی رقم رفاہ عام میں استعمال کرنا*
سوال :
حضرت مفتی صاحب مسئلہ یہ ہےکہ سود کی رقم رفاع عام کے لئے استعمال کی جاتی ہے، ایک شخص کے پاس ایک خطیر رقم ہے اور وہ شخص سرکاری اسکول میں تدریسی خدمت انجام دیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس سودی رقم سے اسکول کی بلڈنگ کو کلر کردیا جائے
دریافت طلب امر یہ ہےکہ اس اسکول کلرنگ کرنا رفاع عام میں شمار ہوگا؟
(المستفتی : عظیم اللہ ندوی، پونے)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بینک اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم سے ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، یہ ممکن نہ ہوتو بلا نیت ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے۔
اسی طرح بینک کے سود کی رقم سے خود کے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کی ادائیگی کرنے کی علماء نے اجازت دی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں غیرواجبی اور ظالمانہ ٹیکس ہیں، اور چونکہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے، جب سود کی رقم انکم ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال کی طرف لوٹے گی، ان کے علاوہ سود کی رقم کا اور کوئی مصرف نہیں ہے۔
سودی رقم کا رفاہ عامہ میں استعمال جائز ہے یہ قول مفتی بہٖ نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سودی رقم سے اسکول کی عمارت کے رنگ و روغن کا کام کروانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13جمادی الآخر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں