ہفتہ، 9 فروری، 2019

حضرت مہدی کے ساتھ علیہ السلام لگانے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب حضرت مہدی کے ساتھ علیہ السلام لگانا یا کہنا کیسا ہے؟ اور علیہ السلام نہ کہے تو پھر حضرت مہدی کے ساتھ کیا لگانا چاہیے؟
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : علیہ السلام یہ دعائیہ جملہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر سلامتی ہو، جس طرح انبیاء علیہم السلام کے ساتھ لگایا جاتا ہے اسی طرح غیر نبی پر بھی علیہ السلام کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ البتہ سلف صالحین نے علیہ السلام کے الفاظ انبیاء علیھم السلام کے ساتھ خاص کیا ہے اس لیے غیر نبی کے ساتھ علیہ السلام لگانا بہتر نہیں، جس میں حضرت مہدی بھی شامل ہیں۔ بالخصوص شیعوں کے اکثریتی علاقوں میں حضرت مہدی کے ساتھ علیہ السلام لگانا تشبہ بالروافض کی وجہ سے ممنوع ہوگا۔ اس لئے کہ شیعہ انہیں اپنا امامِ غائب معصوم سمجھتے ہوئے علیہ السلام کہتے ہیں۔

حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی ؒنے اپنے مجموعۂ فتاویٰ آپ کے مسائل اور ان کا حل میں متعدد جگہوں پر حضرت مہدی کے ساتھ رضی اللہ استعمال فرمایا ہے، اور فرمایا کہ امام ربانی مجدد الف ثانی ؒنے بھی حضرت مہدی کو انہیں الفاظ سے یاد کیا ہے۔

ایک جگہ لکھتے ہیں :
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، اس لئے حضرت مہدی رضی اللہ عنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابی ہیں ان کو رضی اللہ عنہ کہنا صحیح ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ۱ / ۲۷۱)

والظاھر أن العلة في منع السلام ما قالہ النووي في علة منع الصّلاة أن ذلک شعار أھل البدع ولأن ذلک مخصوص في لسان السلف بالأنبیاء علیھم الصلاة والسلام (شامي : ۱۰ /۴۸۳)

ولافرق بین السلام علیہ وعلیہ السلام الا ان قولہ علیّ علیہ السلام من شعار اہل البدعۃ فلا یستحسن فی مقام المرام ۔(فتاوی محمودیہ ۱۳/ ۴۲۳ بحوالہ شرح فقہ اکبر ص ۲۰۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 جمادی الآخر 1440

1 تبصرہ: