ہفتہ، 2 فروری، 2019

نماز میں لاؤڈ-اسپیکر کے استعمال کا حکم

*نماز میں لاؤڈ-اسپیکر کے استعمال کا حکم*

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک  امام صاحب بہت زیادہ تیز آواز سے لاؤڈ اسپیکر میں قرأت کرتے ہیں جسے صرف چیخنے سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مسجد کے اندر اور باہر برآمدے کےسب اسپیکر پورے والیوم سے چالو رہتے ہیں جبکہ برآمدے میں شاذو نادر ہی صفیں لگتی ہیں۔  قرآن سننے میں ذرا بھی دل نہیں لگتا، صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ امام صاحب خوب زور زور سے چیخ رہے ہیں جس سے شدید ذہنی کوفت ہوتی ہے۔  اسپیکر کی صف میں جگہ مل جائے تو  یہ کیفیت اور بھی شدید ہو جاتی ہے۔یہ دیکھ کر بہت افسوس بھی ہوتا ہے کہ اندر کے حصے میں تین چار صفیں ہونے کے باوجود موصوف اتنا ہی زور زور چیختے ہیں  اور اندر اور باہر کے تمام  اسپکیر بھی پورے والیوم کے ساتھ چالو رکھتے ہیں۔ امام موصوف کی لاؤڈ اسپیکر میں نماز پڑھانے کی عادت اتنی بری ہے کہ جمعہ کے دن یا تہواروں کے موقعہ پر جب اندر دو چار صفیں ہی ہوتی ہیں اور اجتماعات کے موقعہ پر جب دو صفیں ہونا مشکل ہوتا ہے  تب بھی یہی حال ہوتا ہے۔ اورنگ آباداجتماع کے دو دن دو صفیں ہونا مشکل تھا۔ دعا کے دن ایک صف اور چند نفوس تھے اس کے باوجود امام موصوف نے گلے میں مائک لٹکا لیا، اندر باہر کے اسپیکر اسی طرح چالو تھے اور موصوف چیخ چیخ کر ویسے ہی قرأت کر رہے تھے۔ پورا محلہ سنسان تھا۔ سڑکوں پر چلنے والے لوگ  اورگاڑیاں ندارداور موصوف کی اواز سڑک سے بھی پرے دور تک جا رہی تھی۔
مسجد کے ایک ذمہ دار سے میں نے پوچھا کہ پرآمدے  میں کوئی صف نہ ہونے کے باوجود باہر کا اسپیکر کیوں چالو رہتا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ  وضو خانے کا اسپیکر ہے گویا وضو اور استنجا کرنے والوں کی اطلاع کیلئے ہے کہ رکوع میں کتنی دیر ہےاور لوگوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وضو خانے کا اسپیکر چالو رکھا جائے۔
سوال یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھانے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔
نماز با جماعت میں امام کی اواز کتنی تیز ہونا چاہئے۔ کیا صرف اتنی کہ نماز میں شامل مقتدی سن لیں یا اتنی تیز کہ وضو خانے، استنجا خانے ، سڑک اور گلی میں چلنے والے تمام لوگ سن  سکیں ۔
باہر برآمدے کے اسپیکر چالو رکھنا کہ وضو اور استنجا کرنے والوں کے معلوم ہو سکے کہ رکوع میں کتنی دیر ہےشرعاً کیسا فعل ہے۔ کیا تاخیر سے آنے والوں کیلئے یہ سہولت مہیا کرنا امام کی یا ٹرسٹی حضرات کی ذمہ داری ہے۔
برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمایئے اور عنداللہ مأ جور ہوں فقہاء کرام کی آراء بھی بیان کیچیے عین نوازش ہوگی ۔
(المستفتی : سعید احمد انصاری، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : علماء کرام اور سائنس دا‍ں حضرات کی تحقیق و جستجو کے مطابق لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہے جو لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے پہلے سے زیادہ قوی ہوجاتی ہے یہ آواز آواز باز گشت نہیں ہے، لہٰذا اس کو نماز میں استعمال کرنا جائز اور درست ہے۔

2) نماز باجماعت میں امام کی آواز اتنی ہونی چاہیے کہ نماز میں شامل مقتدی حضرات آسانی سے سن لیں، اسی طرح وضو خانے تک آواز کا جانا بھی بلا کراہت درست ہے، اس لئے کہ بعض اوقات اس کی بھی ضرورت ہوتی ہے، البتہ اتنی زیادہ آواز رکھنا کہ سڑک تک آواز چلی جائے یا اتنی زور سے تلاوت کرنا اور اسپیکر کی آواز اتنی تیز رکھنا کہ مقتدی حضرات کا ذہن و دماغ کو قرأتِ قرآن سے نشاط ہونے کے بجائے تکلیف ہونے لگے شریعت مطھرہ کی نظر میں ناپسندیدہ اور مکروہ ہے، لہٰذا اس کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔

3) تاخیر سے آنے والوں کے لیے یہ سہولت مہیا کرنا ذمہ داران پر ضروری نہیں ہے، البتہ اگر اعتدال میں رہ کر اس کا انتظام کرلیا جائے تو ممنوع بھی نہیں ہے۔

والجہر أفضل في غیر ذلک؛ لأن العمل فیہ أکبر، ولأنہ یتعدي نفعہ إلی غیرہ، ولأنہ یوقظ قلب القارئ، ویجمع ہمہ إلی الفکر، ویصرف سمعہ إلیہ، ویطرد النوم ویزید النشاط۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۱۶؍۱۹۲)

وإذا جہر الإمام فوق حاجۃ الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما یجہر لإسماع القوم لیدبروا في قرأتہ، لیحصل إحضار القلب۔ (ہندیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، زکریاقدیم ۱/۷۲، زکریا جدید ۱/۱۲۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
3 شوال المکرم 1439

2 تبصرے:

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
      وقف کی زمین کے تعلق سے قرآن مجید میں کہی تذکرہ کیا گیا ہے کیا؟ اگر ہو تو تفصیل کے ساتھ ارسال کریں نوازش ہوگی

      حذف کریں