جمعرات، 14 فروری، 2019

اوجھ (اوجھڑی) کھانے کا حکم

*اوجھ (اوجھڑی) کھانے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! بکرے کی اوجھڑی کا کیا حکم ؟ کیا اس کا کھانا جائز ہے؟ بعض لوگ منع کرتے ہیں ان کی کیا دلیل ہے؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حلال جانوروں (جن میں بکری بکرا بھی شامل ہے) کے درج ذیل سات اعضاء کھانا شرعاً ممنوع ہے۔

١) نر کی شرمگاہ
٢) مادہ کی شرمگاہ
٣) پِتّہ
٤) غدود (جسم کے اندر کی گانٹھ)
٥)دم مسفوح (بہتا ہوا خون)
٦) خصیتین (کپورے)
٧) مثانہ (پیشاب کی تھیلی)

ان کے علاوہ بقیہ تمام اعضاء حلال ہیں جن میں اوجھڑی بھی شامل ہے لہٰذا اوجھڑی کھانا بلا کراہت درست ہے۔ البتہ اسے اچھی طرح صاف کرلینا چاہیے تاکہ اس پر گندگی باقی نہ رہے۔ جو لوگ منع کرتے ہیں ان کی پاس کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔

عَنِ الأوْزاعِيِّ، عَنْ واصِلِ بْنِ أبِي جَمِيلٍ، عَنْ مُجاهِدٍ، قالَ: «كانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَكْرَهُ مِنَ الشّاةِ سَبْعًا: الدَّمَ والمَرارَ والذَّكَرَ والأُنْثَيَيْنِ والحَيا والغُدَّةَ والمَثانَةَ۔ (السنن الکبری للبیہقي ۱۰؍۱۱ رقم: ۱۹۷۰۰- ۱۹۷۰۱، کذا في کتاب الآثار / باب ما یکرہ من الشاۃ الدم وغیرہ ۱۷۹)

قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ (كُرِهَ مِنْ الشَّاةِ الْحَيَاءُ وَالْخُصْيَةُ وَالْغُدَّةُ وَالْمَثَانَةُ وَالْمَرَارَةُ وَالدَّمُ الْمَسْفُوحُ وَالذَّكَرُ) لِمَا رَوَى الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ وَاصِلِ بْنِ مُجَاهِدٍ قَالَ «كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ الشَّاةِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَيَيْنِ وَالْقُبُلَ وَالْغُدَّةَ وَالْمَرَارَةَ وَالْمَثَانَةَ» قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ الدَّمُ حَرَامٌ وَكُرِهَ السِّتَّةُ وَذَلِكَ لِقَوْلِهِ تَعَالَى {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ} [المائدة: 3] وَكُرِهَ مَا سِوَاهُ؛ لِأَنَّهُ مِمَّا تَسْتَخْبِثُهُ النَّفْسُ وَتَكْرَهُهُ وَهَذَا الْمَعْنَى سَبَبُ الْكَرَاهَةِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ} [الأعراف: 157]۔ (البحر الرائق : ٨/٥٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الآخر 1440

4 تبصرے: