*مسجد کے صحن میں جماعتِ ثانیہ کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ہمارے شہر کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ہوئی اس کے ساتھ ہی کچھ لوگوں کی جماعت فوت ہوگئی حالانکہ اطراف کی مساجد میں تاخیر سے جماعت کا وقت متعین ہے اور اگر وہ وہاں جاتے تو انہیں جماعت سے نماز مل بھی جاتی مگر جس مسجد میں نماز ہوگئی اسی مسجد میں دوبارہ صحن میں نمازکھڑی کی گئی اور جن لوگوں کی نماز فوت ہوئی تھی انہوں نے اسی مسجد میں ان میں سے ایک کو امام بنا کر جماعت سےنماز ادا کی تو کیا ان کی نمازوں میں کوئی فرق آیا اور کیا ایساکرنا جائز ہے؟
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجدِ محلہ جس میں امام و مؤذن متعین ہوتے ہیں ایسی مسجد میں اذان و اقامت کے ساتھ پہلی جماعت کی ہیئت پر جماعتِ ثانیہ مکروہ تحریمی ہے، اور بلا اذان و اقامت اصل مصلے سے ہٹ کر جماعتِ ثانیہ مکروہ تنزیہی ہے، نیز اس میں جماعت کا ثواب نہیں ملتا بلکہ پہلی صورت میں ارتکاب مکروہ تحریمی کا گناہ ہوتا ہے، اور دوسری صورت میں کراہت کی وجہ سے نماز کا ثواب کم ہوجاتا ہے، اس لئے کہ جماعتِ ثانیہ کی وجہ سے پہلی جماعت کی تقلیل لازم آتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اصل جماعت ہوجانے کے بعد آنے والے حضرات کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ قریب کی مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے، یا مسجد کی شرعی کی حدود سے باہر جماعت کرتے یا پھر سب لوگ اپنی اپنی نماز پڑھتے۔ عموماً مساجد کا صحن چونکہ مسجد کی حدود میں ہی ہوتا ہے، لہٰذا یہاں دوسری جماعت کرنے کی وجہ سے نماز کراہتِ تنزیہی کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔ البتہ آئندہ اس کا خوب خیال رکھا جائے، ورنہ اس عمل کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور لوگ اپنی سہولت سے کبھی بھی مسجد آیا کریں گے اور باجماعت نماز کرکے سمجھیں گے کہ ہم نے جماعت کا ثواب حاصل کرلیا۔
عَنْ سالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : لا تُجْمَعُ صَلاةٌ واحِدَةٌ فِي مَسْجِدٍ واحِدٍ مَرَّتَيْنِ۔ (المدونۃ : ١/١٨١)
وَمُقْتَضَى هَذَا الِاسْتِدْلَالِ كَرَاهَةُ التَّكْرَارِ فِي مَسْجِدِ الْمَحَلَّةِ وَلَوْ بِدُونِ أَذَانٍ؛ وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ: لَوْ دَخَلَ جَمَاعَةٌ الْمَسْجِدَ بَعْدَ مَا صَلَّى فِيهِ أَهْلُهُ يُصَلُّونَ وُحْدَانًا وَهُوَ ظَاهِرُ الرِّوَايَةِ۔ (شامی : ١/٥٥٣)
وَرُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانُوا إذَا فَاتَتْهُمْ الْجَمَاعَةُ صَلَّوْا فِي الْمَسْجِدِ فُرَادَى؛ وَلِأَنَّ التَّكْرَارَ يُؤَدِّي إلَى تَقْلِيلِ الْجَمَاعَةِ؛ لِأَنَّ النَّاسَ إذَا عَلِمُوا أَنَّهُمْ تَفُوتُهُمْ الْجَمَاعَةُ فَيَسْتَعْجِلُونَ فَتَكْثُرُ الْجَمَاعَةُ، وَإِذَا عَلِمُوا أَنَّهَا لَا تَفُوتُهُمْ يَتَأَخَّرُونَ فَتَقِلُّ الْجَمَاعَةُ، وَتَقْلِيلُ الْجَمَاعَةِ مَكْرُوهٌ۔ (بدائع الصنائع : ۱/١٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 ربیع الآخر 1440
بہت بہترین و مدلل جواب
جواب دیںحذف کریںاگر صحن مسجد کی شرعی حدود سے باہر ہو تب کیا حکم ہے؟
جواب دیںحذف کریںاور کچھ مساجد میں جمعہ کی نماز میں مسجد کی جگہ کم پڑھتی ہے تو وہاں اسی مسجد میں جمعہ کی ۲ یا ۳ الگ الگ جماعتیں کی جاتی ہے اس میں کیا شکل بہتر ہے؟
اگر صحن مسجد کی شرعی حدود کے باہر ہے تو گنجائش ہے۔
حذف کریںجگہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک سے زائد جماعت کی جائے تو اس کی اجازت ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم